لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
حضرت عبد اللہ بن عمرفرماتے ہیں کہ اِزار کے بارے میں آپﷺنے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے (کہ اُسے ٹخنوں سے نیچے نہ رکھاجائے )وہی قمیص کے بارے میں بھی ہے ۔مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْإِزَارِ، فَهُوَ فِي الْقَمِيصِ ۔(ابوداؤد :4095)(شعب الایمان :5724)اِسبال کا حکم : اِسبال ِ اِزار مَردوں کے لئے حرام اور عورتوں کے لئے جائز ہے ۔(المسالک فی شرح مؤطا مالک :7/294)(عون المعبود :11/96)اِسبالِ اِزار مطلقاً حرام ہے ، صرف تکبّر کی حالت میں نہیں : بہت سے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ کپڑوں کا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا صرف تکبّر اور غرور کے طور پر حرام ہے ، اگر تکبّر نہ ہو تو جائز ہے، چنانچہ اُنہیں جب اِس فعلِ قبیح سے منع کیا جاتا ہے تو جَھٹ سے کہہ دیتے ہیں کہ میرے دل میں کوئی تکبّر تھوڑی ہے ۔ اور وہ دلیل یہ دیتے ہیں کہ حدیث میں ” خُيَلَاءَ “ تکبّر کے طور پر اِزار لٹکانے والے کے لئے وعیدیں ذکر کی گئی ہیں، لہٰذا تکبّر کے بغیر اسے ناجائز نہیں کہا جاسکتا ۔ نیز وہ اِستدلال کرتے ہیں حضرت ابوبکر صدیقکی اُس روایت سے جس میں اُنہوں نے نبی کریمﷺسے اپنا یہ عذر بیان کیا تھا ” إِنَّ أَحَدَ جَانِبَيْ إِزَارِي يَسْتَرْخِي، إِنِّي لَأَتَعَاهَدُ ذَلِكَ مِنْهُ “یعنی میرے اِزار کا ایک جانب کا حصہ لٹک جاتا ہےجس کی وجہ سے میں اس کا بہت خیال رکھتا ہوں کہ کہیں ٹخنوں پر لٹک نہ جائے، آپﷺنے اِرشاد فرمایا : لَسْتَ مِمَّنْ يَفْعَلُهُ خُيَلَاءَ ۔ یعنی آپ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو اسے غرور و تکبر کی وجہ سے کرتے ہیں۔(ابوداؤد:4085)اِسبالِ اِزار کے مطلقاً ممنوع ہونے کے دلائل : یہ خیال درست نہیں،اِسبالِ اِزار کی ممانعت مطلقاً ہے خواہ تکبّر کے ساتھ ہویا بغیر تکبّر کے۔علّامہ ابن العربی فرماتے ہیں:کسی مَرد کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے کپڑوں کو ٹخنوں سے نیچے لٹکائے اور یہ بہانہ بنائے کہ میں تکبّر کے طور پر نہیں کرتا ، اِس لئے کہ ممانعت کی روایات تکبّر نہ ہونے کی صورت کو بھی شامل ہیں ، پس اُس کا دعویٰ ہرگز قابلِ تسلیم نہیں ہوگا، بلکہ اُس کا اِزار کا لٹکانا تکبّر پر ہی دلالت کرے گا ۔(عون المعبود :11/96)(اوجزالمسالک :16/183)(تکملہ فتح الملہم :4/107) اور اس کے مطلقاً ممنوع ہونے کی وجوہات اور دلائل مندرجہ ذیل ہیں :