لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
شافعی تک مُعَصفَر کپڑوں کی ممانعت کی روایت پہنچی نہیں تھی ، ورنہ وہ ضرور منع کردیتے ۔ امام مالک : تین قول منقول ہیں : (1)جواز مطلقاً ۔(2)گھروں میں جائز اور مَحافِل و اسواق میں ناجائز۔ (3)زیادہ گہرا رنگ نہ کیا گیا ہو تو جائز ہے ، ورنہ نہیں ۔ (اوجز المسالک :16/160 تا 162)(شرح الزرقانی علی المؤطا:3/425)(الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ :23/223)زَعفَران سے رنگے ہوئے کپڑوں کا حکم : عورتوں کے لئے بالاتفاق کوئی ممانعت نہیں ، مَردوں کے لئے جائز ہیں یا نہیں ، اِس میں اختلاف ہے : امام مالک : کپڑوں میں اس کا اِستعمال جائز ہے، بدن پرجائز نہیں ۔(عون المعبود :11/157) ائمہ ثلاثہ : مَردوں کے لئے اس کا اِستعمال جسم اور کپڑوں دونوں میں مطلقاً ممنوع ہے۔دلائل :حضرات مالکیہ : مؤطا امام مالک کی حدیث میں حضرت عبد اللہ بن عمر کے بارے میں ہے کہ وہ زَعفَران کے رنگے ہوئے کپڑے اِستعمال کرتے تھے۔عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يَلْبَسُ الثَّوْبَ الْمَصْبُوغَ بِالْمِشْقِ وَالْمَصْبُوغَ بِالزَّعْفَرَانِ۔(مؤطامالک مع الزرقانی :4/424) اور مُزَعفَر کپڑوں کی ممانعت کی جوروایات ہیں جیسے بخاری شریف کی روایت : ” نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتَزَعْفَرَ الرَّجُلُ “وہ یا تو حالتِ اِحرام پر محمول ہیں ، یا اُن کا مطلب یہ ہے کہ بَدن پر لگانے کو منع کیا گیا ہے ، کپڑوں میں اِستعمال کرسکتے ہیں ۔(مؤطامالک مع الزرقانی :4/425)ائمہ ثلاثہ : احادیث میں ”تَزعفُر“ کی مطلقاً ممانعت وارد ہوئی ہے، چنانچہ بخاری شریف میں ہے : ” نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتَزَعْفَرَ الرَّجُلُ “، لہٰذا اسے احرام یا بدن کے ساتھ مخصوص کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔ (مؤطا مع الزرقانی :4/425)(اوجز المسالک :16/160 ،161)(کشف الباری ، کتاب اللباس :205)