لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
«الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَزَقَنِي مِنَ الرِّيَاشِ مَا أَتَجَمَّلُ بِهِ فِي النَّاسِ، وَأُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي» تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے زینت کا سامان عطاء کیا جس کے ذریعہ میں لوگوں میں تجمّل اور زینت اختیار کرتا ہوں اور اپنے ستر کو بھی چھپاتا ہوں ۔ پھر فرمایا کہ یہ میں نے نبی کریمﷺسے سنا ہے ۔(مسند احمد :1353) (3)………«الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَارَى عَوْرَتِي، وَجَمَّلَنِي فِي عِبَادِهِ» حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ نے ایک سفعہ نئے کپڑ پہنے اور یہ دعاء پڑھی : ”تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہی ہیں جس نے میرے ستر کو چھپایا اور اپنے بندوں میں مجھے زینت عطاء فرمائی “ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: لَبِسَ حُذَيْفَةُ ثِيَابًا جُدُدًا، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَارَى عَوْرَتِي، وَجَمَّلَنِي فِي عِبَادِهِ، ثُمَّ قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا لَبِسَ ثِيَابًا جُدُدًا قَالَ مِثْلَ ذَلِكَ»۔(طبرانی اوسط:1073)کسی کو نیا یا اچھا کپڑا پہنے دیکھیں تو یہ دعاء پڑھیں : (1)…………حضرت ابو نضرہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کے صحابہ میں سے کوئی جب نیا کپڑا پہنتا تو اسے کہا جاتا : «تُبْلِى وَيُخْلِفُ اللَّهُ تَعَالَى» تم اسے (پہن پہن کر) بوسیدہ کرو اور اس کے بعد اللہ تمہیں اور عطا فرمائیں گے۔قَالَ أَبُو نَضْرَةَ:فَكَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلّى الله عليه وسلم إِذَا لَبِسَ أَحَدُهُمْ ثَوْبًا جَدِيدًا قِيلَ لَهُ:«تُبْلِى وَيُخْلِفُ اللَّهُ تَعَالَى»۔(ابوداؤد:4020) (2)…………حضرت ام خالد بنت خالد بن سعید بن العاص فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ کپڑے لائے گئے ان میں ایک چھوٹی سیاہ چادر بھی تھی آپ نے فرمایا کہ تم اس کے زیادہ مستحق کسے خیال کرتے ہو؟ پس سب لوگ خاموش ہو گئے تو حضور نے فرمایا کہ ام خالد کو میرے پاس لاؤ انہیں لایا گیا تو وہ چادر انہیں پہنا دیں پھر دو مرتبہ فرمایا: «أَبْلِي وَأَخْلِقِي»(اللہ کرے کہ) تم اسے (پہن پہن کر) بوسیدہ کردو اور اس کے بعد تمہیں دوبارہ ملے۔ اور حضور ﷺچادر کے سرخ و زرد نقش و نگار کو دیکھتے جاتے اور فرماتے جاتے کہ” سَناہ سَناہ“ اے ام خالد۔ حبشی زبان میں ”سَنَاہ “کے معنی اچھا کے ہیں۔عَنْ أُمِّ خَالِدٍ بِنْتِ خَالِدِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِكِسْوَةٍ فِيهَا خَمِيصَةٌ صَغِيرَةٌ فَقَالَ: «مَنْ تَرَوْنَ أَحَقُّ بِهَذِهِ» فَسَكَتَ الْقَوْمُ، فَقَالَ: «ائْتُونِي بِأُمِّ خَالِدٍ»