لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
﴿پہلی دلیل ﴾ اِس لئے کہ بہت سی روایات میں بغیر کسی قید کے مطلقاً بھی مُمانعت ذکر کی گئی ہے ، لہٰذا جن روایات میں” خُيَلَاءَ“کی قید مذکور ہے وہ قیدِ احترازی نہیں ، بلکہ قیدِ اتفاقی ہے۔(فتاویٰ رحیمیہ :5/148) قیدِ اتفاقی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حکم کا مَدار اُس قید پر نہیں ہوتا ، پس اس اعتبار سے یہ تکبّر کی قیدبھی باعتبار اکثر و اَغلَب کے ذکر کردی گئی ہے ، کیونکہ عموماً یہ فعل تکبّر کے طور پر ہی کیا جاتا ہے بالخصوص اُس وقت تو اِس کا اور بھی رَواج تھا جبکہ آپﷺنے اس کی ممانعت فرمائی تھی ، چنانچہ زمانہ جاہلیت میں اِزار لٹکا کر چلنے کا عام معمول تھا ، اور وہ لوگ اِس کو فخر وغرور کے ساتھ کیا کرتے تھے ۔﴿دوسری دلیل ﴾ اِس فعل کے مطلقاً ممنوع ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اِزار کو لٹکاکر چلنے میں پائنچے گندے اور بعض اوقات نجس بھی ہوجاتے ہیں ،چنانچہ نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے :اپنے اِزار کو اونچا رکھو ، اِس لئے کہ اِس سے کپڑے زیادہ دیر تک باقی رہیں گے اور زیادہ صاف بھی رہیں گے۔ارْفَعْ إِزَارَكَ فَإِنَّهُ أَبْقَى وَأَنْقَى۔(مسند احمد :23086)ظاہر ہے کہ اِس حکمت کو سامنے رکھتے ہوئے تکبّر کی قید کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ۔(تکملہ فتح الملہم :4/106)(فتح الباری :10/263)﴿تیسری دلیل ﴾ اِس فعل کے مطلقاً ممنوع ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اِزار کو لٹکاکر چلنے میں عورتوں کے ساتھ مشابہت بھی پائی جاتی ہے ، کیونکہ شریعت میں عورتوں کے لئے ٹخنوں کو چھپانے کا حکم ہے ، پس جو لوگ ٹخنے کو ڈھانکتے ہیں وہ در اصل عورتوں کے لِباس کی مشابہت اختیار کرتے ہیں، حالانکہ مَردوں کے لئے عورتوں کی مُشابہت اختیار کرنا جائز نہیں ۔چنانچہ حدیث میں ہے نبی کریمﷺنے اُن مَردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورت جیسا لِباس پہنے۔لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّجُلَ يَلْبَسُ لِبْسَةَ الْمَرْأَةِ ۔(شعب الایمان : 7416)(تکملہ فتح الملہم :4/106)(فتح الباری :10/263)﴿چوتھی دلیل ﴾