لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی فرماتے ہیں :اب یہ کفار و فساق کا شعار نہیں ، اِ س لئے تشبہ ممنوع میں داخل نہیں ، البتہ ہمارے اطراف میں اتقیاء اور صلحاء کا یہ لِباس نہیں اس لئے ایسے لباس کا ترک اولیٰ و اَنسَب ہے ۔(فتاویٰ محمودیہ :19/267)گلے میں ٹائی لٹکانا : گلے میں ٹائی لٹکانا بھی مسلمانوں والا لِباس نہیں، مغربی تہذیب کا حصہ ہے ، اِس لئے اس سے احتراز کرنا چاہیئے ۔ حضرت مولانا یوسف لُدھیانوی شہید فرماتے ہیں : میں نے کسی کتاب میں پڑھا ہے کہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کا جب پہلا ایڈیشن شائع ہوا تو اس میں ٹائی کے متعلق بتایا گیا تھا کہ اس سے مراد وہ نشان ہے جو صلیب مقدس کی علامت کے طور پر عیسائی گلے میں ڈالتے ہیں، لیکن بعد کے ایڈیشنوں میں اس کو بدل دیا گیا۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہندو مذہب کا شعار “زنار” ہے، اسی طرح ٹائی عیسائیوں کا مذہبی شعار ہے، اور کسی قوم کے مذہبی شعار کو اپنانا نہ صرف ناجائز ہے بلکہ اسلامی غیرت و حمیت کے بھی خلاف ہے۔(آپ کے مسائل اور اُن کا حل :8/371) لیکن اب چونکہ یہ ٹائی لٹکانا مسلمانوں میں بھی عام ہوچکا ہے اور مشابہت کا معنی باقی نہ رہا ، اِس لئے اس کے اندر وہ شدّت باقی نہ رہے گی ، تاہم پھر بھی صلحاء کے لِباس کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے اجتناب ہی بہتر ہے ۔ حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی فرماتے ہیں : ٹائی ایک وقت میں نصاریٰ کا شعار تھا اس وقت اس کا حکم بھی سخت تھا ، اب غیر نصاریٰ بھی بکثرت استعمال کرتے ہیں ، بہت سے صوم و صلوٰۃ کے پابند مسلمان بھی استعمال کرتے ہیں اب اس کے حکم میں تخفیف ہے ، اس کو شرک یا حرام نہیں کہا جائے گا ، کراہیت سے اب بھی خالی نہیں ، کہیں کراہیت سخت ہوگی کہیں ہلکی۔(فتاویٰ محمودیہ :19/289)تشبّہ بالجنس المُخالِف کی ممانعت : اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کو دو مختلف صنف( صنفِ قوی اورصنفِ نازک ) بنایا ہے اور دونوں کو ظاہری و باطنی طور پر بہت سے امتیازات و خصوصیات عطاء کی ہیں اُن کے درمیان فرق رکھا گیا ہے ، اُن کے لئے اِس بات کو روا نہیں رکھا گیا کہ وہ ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کریں ، ایسا کرنے والوں کو لعنت کا مَورِداور رحمتِ خداوندی سے دور قرار دیا گیا ہے ۔