لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
نبی کریمﷺنے ذبحِ شرعی کو ہی کھال کی پاکی قرار دیا ہے ، نیز ذبح کرنے سے نجس رطوبتیں زائل ہوجاتی ہیں لہٰذا اُس کے بعد کھال کے ناپاک ہونی کی کوئی وجہ نہیں، باقی رہا ”جلود السباع “ اور ”رکوب النمور “ کا مسئلہ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اَس لئے منع کیا گیا تھا کیونکہ اُس زمانے میں درندوں کی کھال کو تکبّر اور غرور کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے جو ظاہر ہے کہ جائز نہیں ، یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ بغیر دباغت کے مردار کی کھال استعمال کرتے تھے اور یہ بھی جائز نہیں ۔إِنَّ دِبَاغَ الْأَدِيمِ طُهُورُهُ۔(مسند احمد :3521)وَلأَِنَّ الذَّكَاةَ تَعْمَل عَمَل الدِّبَاغِ فِي إِزَالَةِ الرُّطُوبَاتِ النَّجِسَةِ، أَمَّا النَّهْيُ عَنِ افْتِرَاشِ جُلُودِ السِّبَاعِ وَرُكُوبِ النُّمُورِ فَلأَِنَّ ذَلِكَ مَرَاكِبُ أَهْل الْخُيَلاَءِ، أَوْ لأَِنَّهُمْ كَانُوا يَسْتَعْمِلُونَهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ تُدْبَغَ۔(الموسوعة الفقهية الكويتية:7/96)مردار کی کھال کو استعمال کرنا : جانور اگر اپنی موت مرگیا ہو یا اُسے ذبح شرعی کے بغیر ماردیا گیا ہو تو وہ مردار کہلاتا ہے ۔(احکام القرآن للجصاص :1/132) ایسے مردار جانور کی کھال سے نفع حاصل کرسکتے ہیں یا نہیں ، اِس میں اختلاف ہے اور فقہاء کے کئی اقوال ہیں:پہلا قول :مطلقاًانتفاع جائز ہے ، چاہے قبل الدباغ ہو یا بعد الدباغ ۔ یہ ابن شہاب الزھری کا قول ہے ۔دوسرا قول : مطلقاًانتفاع نا جائز ہے ، چاہے قبل الدباغ ہو یا بعد الدباغ ۔ یہ امام احمد بن حنبل کا قول ہے ۔تیسرا قول :دباغت کے بعد مطلقاً انتفاع جائز ہے ، حتی کہ خنزیر اور کلب بھی مستثنیٰ نہیں ہیں ۔ھذا قول ابی یوسف ۔چوتھا قول : دباغت کے بعد انتفاع جائز ہے، سوائے خنزیر کے ، کیونکہ وہ جائز نہیں ۔ ھذا قول ابی حنیفہ ۔پانچواں قول :بالکل چوتھے قول کی طرح ہے ، بس اس میں خنزیر کے ساتھ کتا بھی مستثنیٰ ہے ۔ھذا قول الشافعی ۔چھٹا قول : بالکل چوتھے قول کی طرح ہے، اور اس میں خنزیر و کلب کے ساتھ فیل بھی مستثنیٰ ہے ۔ ھذا قول الامام محمد ساتواں قول :صرف ماکول اللحم کی کھال پاک ہوگی ، غیر ماکول اللحم کی پاک نہ ہوگی ۔ ھذا عند الاوزاعی و ابن المبارک ۔آٹھواں قول :دباغت کے ذریعہ صرف ظاہر پاک ہوگا ، باطن نہیں ، پس اِسی لئے اُس میں صرف خشک اشیاء استعمال کرسکتے ہیں ، مائعات کو استعمال نہیں کیا جاسکتا۔یہ امام مالک کا مسلَک ہے۔(الموسوعة الفقهية الكويتية:7/96، 97)