لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
سیاہ کپڑے : سیاہ کپڑے پہننا اصل مسئلہ کی رو سے جائز ہے ، اس میں کوئی قباحت نہیں ، نبی کریمﷺسے کالا عمامہ ، کالی چادر پہننا ثابت ہے ، البتہ اگر کوئی غم اور افسوس کے اِظہار کے طور پر سیاہ کپڑے پہنتا ہے جیسا کہ کسی کے انتقال پر یا کسی حادثہ اور افسوس ناک واقعہ یا بطور خاص محرم میں سیاہ کپڑے پہنے جاتے ہیں ، کالی پٹی باندھی جاتی ہے وغیرہ وغیرہ ، یہ سب ناجائز ہے ، اِس لئے کہ اس میں روافض کے ساتھ مشابہت بھی ہے اور غم کے منانے کا ناجائز اور خلافِ سنت طریقہ ہے ، جس سے اجتناب بہر حال ضروری ہے ۔(کفایت المفتی :9/159، کتاب الحظر و الاباحۃ ) حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی فرماتے ہیں :کالے کپڑے پہننا درست ہے ، مگر جب کسی جماعت فساق یا کفار کا شعار ہو جیسا کہ محرم میں روافض کا شعار ہے تو اس سے بچنا چاہیئے ۔(فتاویٰ محمودیہ :19/266) مصیبت کے وقت میں کالے کپڑوں کا پہننابدعت ہےاور غم کے اظہار کا ایسا طریقہ ہےجو گریبان پھاڑنے اور گال پیٹنے ہی کی طرح کا ایک عمل ہے۔وأما لبس السواد عند المصيبة فمن البدع۔(مجموع فتاوى ورسائل العثيمين:17/330)لبس السواد حداداً على الميت من البدع وإظهار الحزن، وهو شبيه بشق الجيوب ولطم الخدود۔(ایضاً :17/414)نہی سے قبل آپﷺکا ریشمی کپڑے پہننا : حضرت واقد بن عمر بن سعد بن معاذ کہتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک تشریف لائے تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا ، انہوں نے پوچھا تم کون ہو؟ میں نے کہا میں واقد بن عمر ہوں حضرت انس رونے لگے اور فرمایا تمہاری شکل سعد سے ملتی ہے اور وہ بہت بڑے لوگوں میں سے تھے، انہوں نے ایک مرتبہ نبی ﷺ کی خدمت میں ایک ریشمی جبہ بھیجا جس پر سونے کا کام ہوا تھا جب آپ ﷺنے اسے پہنا اور منبر پر تشریف لائے تو لوگ اسے چھونے لگے اور کہنے لگے کہ ہم نے آج تک ایسا کپڑا نہیں دیکھا ،آپ ﷺنے فرمایا کیا تم لوگ اس پر تعجب کرتے ہو حضرت سعد کے جنتی رومال اس سے اچھے ہیں جو تم دیکھ رہے ہو۔وَاقِدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، قَالَ: قَدِمَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ فَأَتَيْتُهُ، فَقَالَ: مَنْ أَنْتَ؟ فَقُلْتُ: أَنَا وَاقِدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، قَالَ: فَبَكَى، وَقَالَ: إِنَّكَ لَشَبِيهٌ بِسَعْدٍ، وَإِنَّ سَعْدًا كَانَ مِنْ أَعْظَمِ النَّاسِ وَأَطْوَلِهِمْ، وَإِنَّهُ بُعِثَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُبَّةٌ مِنْ دِيبَاجٍ مَنْسُوجٌ فِيهَا الذَّهَبُ،