لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے : تم میں سے کوئی اُس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اُس کے نزدیک اُس کی اولاد ، والد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب و پسندیدہ نہ ہوجاؤں۔لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ، وَوَالِدِهِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ۔(ابن ماجہ :67)چھٹا ادب : لِباس میں اِعتدال اور سادگی کو اپنانا : اگرچہ عُمدہ اور قیمتی کپڑوں کا پہننا اور کپڑوں میں زیب و زینت اور تجمّل اختیار کرنا بشرطیکہ تکبّر و غرور کے طور پر نہ ہو تو جائز بلکہ مندوب ہے جیسا کہ احادیث سے اِس کی وضاحت ہوتی ہے ، نبی کریمﷺنے بھی بعض مواقع پر صحابہ کرام کو ادنیٰ درجہ کے کپڑے پہنے دیکھ کر تنبیہ کی تھی ، لیکن دوسری جانب یہ بھی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ اُس کے مقابلے میں تواضع اختیار کرتے ہوئے اعتدال کے ساتھ سادگی کو اپنانا اعلیٰ اور ارفع درجہ ہے۔(اوجز المسالک:16/145 ، 146) بلکہ خود نبی کریمﷺکی عملی زندگی اورآپ کے جانثار صحابہ کرام کی پاکیزہ زندگیوں کو دیکھا جائے تو یہی نظر آتا ہے کہ آپ نے اور آپ کے پیارے اصحاب رضوان اللہ علیھم اجمعین نے لِباس و پوشاک اور اوڑھنے بچھونے میں سادگی کو اپنایا تھا اور تمام تر تکلّفات سے کنارہ کش رہتے ہوئے تواضع اور عجز و انکساری کے پیکر بن کر زندگی گزاری تھی۔بلکہ بغیر کسی شک اور تردّد کے یہ کہاجاسکتا ہے کہ سادگی اُن کی زندگی کا سب سے نمایاں اور ظاہر و باہر وصف تھا ، ماقبل میں اِس کے بہت سے واقعات اور مثالیں ذکر کی جاچکی ہیں ، جنہیں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔ ان دونوں حکموں اور طریقوں میں سب سے بہتر طریقہ اعتدال کا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر قسم کے تکلّفات و تصنّع سے اِجتناب کرتے ہوئے اپنی حیثیت کے مطابق اعتدال کی راہ کو اپنایاجائے ، نہ بہت زیادہ قیمتی پوشاک کے حصول کی فکر میں دن و رات لگا ئے جائیں ، بایں معنی کہ یہی زندگی کا مشغلہ بن کر رہ جائے اور نہ ہی اِس قدر پھٹے پُرانے اور بوسیدہ کپڑے پہنے جائیں کہ لوگوں کو دیکھنے میں محتاجگی اور مفلسی محسوس ہونے لگے ، یہ ایک معتدل راستہ ہے جس پر ان شاء اللہ چلتے ہوئے دونوں حکموں پر بآسانی عمل کیا جاسکتا ہے ۔ اور یہ اعتدال ایسی چیز ہے جس کا ہر جگہ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اسی سے اعمال میں دوام اور حُسن پیداہوتا ہے ۔نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے :میانہ رَوی کو تھام لو ، میانہ رَوی کو تھام لو ۔عَلَيْكُمْ بِالْقَصْدِ، عَلَيْكُمْ بِالْقَصْدِ۔(ابن حبان : 2/72)