لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
پس مذکورہ بالا تمام اقوال کی روشنی میں خلاصۃً یوں تعریف کی جاسکتی ہے : ”ایمان لانے کے بعد شرم و حیاء کا پیکر بن کر ظاہری طور پر شریعت کے بتائے ہوئے ستر کے اعضاء کو چھپانا اور باطنی طور پر اللہ تعالیٰ کے خوف کا حامل بن کر عملی زندگی میں درست راستے کو اپنانا ، اور اِس راستے میں بننے والی رُکاوٹوں کے ساتھ قِتال کرنا ”لِباسِ تقویٰ “ کہلاتا ہے“ ۔لِباسِ تقویٰ کی اہمیت : اِس سے معلوم ہوا کہ صرف ظاہری طور پر جسم کے ڈھانکنے کا نام لِباس نہیں ، بلکہ ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن کو بھی تقویٰ کے لِبادے سے مزیّن و آراستہ کرنا ضروری ہے اور یہی انسان کا اصل لبادہ ہے جس کے بغیر انسان اور جانور میں کوئی خاص امتیاز باقی نہیں رہ جاتا ، اِسی لئے اِس لِباس کو ” ذَلِكَ خَيْرٌ “ کہہ کر سب سے افضل اور بہترین قرار دیا گیا ہے ۔ نبی کریمﷺکاارشاد ہے :آخری زمانے میں ایسے لوگ نکلیں گے جو دین کے ذریعہ دنیا کو حاصل کریں گے ،نرمی ظاہر کرنے کے لئے بھیڑ کی کھالوں (اون کے کپڑوں) کو پہنیں گے ، ان کی زبانیں شہد سے زیادہ میٹھی ہوں گی اور دل اُن کے بھیڑیوں کے دلوں کی طرح (خونخوار) ہوں گے ۔يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ رِجَالٌ يَخْتِلُونَ الدُّنْيَا بِالدِّينِ يَلْبَسُونَ لِلنَّاسِ جُلُودَ الضَّأْنِ مِنَ اللِّينِ، أَلْسِنَتُهُمْ أَحْلَى مِنَ السُّكَّرِ، وَقُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الذِّئَابِ۔ (ترمذی:2404) جب انسان کا باطن نہ بنا ہو اور وہ اپنے قلب و باطن اور رو ح و روحانیت سے یکسر غافل ہوکر صرف ظاہر کی تعمیر اور تزیین و آرائش میں لگ جائے تو اُس کی مثال رفتہ رفتہ ایسی ہوجاتی ہے جیسا کہ نبی کریمﷺنے قربِ قیامت کے لوگوں کے احوال کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : قربِ قیامت میں ایسے لوگ ہوں گے جو بھیڑیوں کے قلوب پر بھیڑ کی کھالیں پہنیں گے (یعنی اُن کے جسموں پر تو اون کا لباس ہوگا لیکن دل بھیڑیوں کی طرح سخت خونخوار ہوں گے )يَلْبَسُونَ جُلُودَ الضَّأْنِ عَلَى قُلُوبِ الذِّئَابِ۔(مسند الحارث:768)(حِلیۃ الاولیاء :6/59)لِباس میں اعتدال کی تعلیم : شریعت میں ہر چیز کے اندر اعتدال اور میانہ روی کی تعلیم دی گئی ہے اور اِفراط و تفریط سے منع کیا گیا ہے ، پس کپڑوں میں بھی اِسی اصول کے مطابق انسان کو معتدل رہنا چاہیئے ، نہ بہت زیادہ عیش وعشرت اور تنعّم کے لِباس کو اپنانا چاہیئے اور نہ ہی