لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
مومن کا کپڑا پنڈلیوں کے سخت حصہ (گھٹنے سے کچھ نیچے )تک ہونا چاہیئے ، (اگر یہاں تک نہ ہوسکے تو )پھر پنڈلیوں کے نصف حصہ تک ، (یہ بھی نہ ہوسکے تو )پھر ٹخنوں تک ہونا چاہیئے ، اور ٹخنوں سے (نیچے درست نہیں لہٰذا اس سے )نیچے جو ہوگا وہ جہنم کی آگ میں جلے گا۔إِزْرَةُ الْمُؤْمِنِ إِلَى عَضَلَةِ سَاقَيْهِ، ثُمَّ إِلَى نِصْفِ سَاقَيْهِ، ثُمَّ إِلَى كَعْبَيْهِ، فَمَا كَانَ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِكَ فِي النَّارِ۔(مسند احمد :7857) حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے مجھے ایک قبطی (قبطیوں کا تیار کردہ )کپڑا پہنایا اور حضرت اُسامہ کو بھی ایک دھاری دار جوڑا پہنایا ۔ آپﷺنے مجھے دیکھا کہ میں نے کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکایا ہوا ہے ، آپﷺمیرے پاس تشریف لائے اور مجھے کندھوں سے پکڑ کر اِرشاد فرمایا :اے ابن ِ عمر ! کپڑوں کا جوبھی حصہ زمین کو لگتا ہے وہ جہنم کی آگ میں جلے گا ۔كَسَانِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبْطِيَّةً، وَكَسَا أُسَامَةَ حُلَّةً سِيَرَاءَ قَالَ: فَنَظَرَ فَرَآنِي قَدْ أَسْبَلْتُ، فَجَاءَ فَأَخَذَ بِمَنْكِبِي وَقَالَ:يَا ابْنَ عُمَرَ، كُلُّ شَيْءٍ مَسَّ الْأَرْضَ مِنَ الثِّيَابِ فَفِي النَّارِ۔(مسند احمد :5727)نماز قبول نہیں ہوتی : اِسبالِ اِزار کے ساتھ نماز بھی قبول نہیں ہوتی اور قبول نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ فرض تو ساقط ہوجاتا ہے لیکن نماز مکروہ ہوتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ نماز کا ثواب نہیں ملتا ۔(فتاویٰ رحیمیہ :5/148)احادیث ملاحظہ فرمائیں : بے شک اللہ تعالیٰ ازار لٹکانے والے کی نماز قبول نہیں کرتے۔إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبَلُ صَلَاةَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ۔(ابوداؤد:4086) حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص اپنا تہبند نیچے لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا، نبی کریمﷺ نے اس سے فرمایا:جا ؤ ، جاکر وضو کرو ، وہ شخص گیا اور وضو کرکے پھر آیا(اور حسبِ سابق ازار نیچےکرکے نماز پڑھنے لگا )آپﷺنے اُسے پھر وہی کہا :جاؤ ، جاکر وضو کرو۔یہ دیکھ کر ایک شخص نے نبی کریمﷺ سے سوال کیا :یا رسول اللہ!آپ کیوں انہیں بار بار وضو کا حکم کرتے ہیں پھر خاموش ہو جاتے ہیں ؟آپ نے فرمایا: وہ ازار لٹکا کر نماز پڑھ رہا تھا اور اللہ تعالی تہبند لٹکا کر نماز پڑھنے والے کی نماز کو قبول نہیں فرماتے۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: بَيْنَمَا رَجُلٌ يُصَلِّي مُسْبِلًا إِزَارَهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:«اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ»، فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ:«اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ»، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: