لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
حضرت ابو سعیدخدری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کوئی نیا کپڑا زیب تن فرماتے تو اس کا نام لیتے یا تو قمیص یا عمامہ، پھر فرماتے : «اَللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ كَسَوْتَنِيهِ أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِهِ وَخَيْرِ مَا صُنِعَ لَهُ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهِ، وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَهُ»اے اللہ! آپ ہی کے لئے تعریف ہے آپ نے ہی مجھے یہ کپڑا پہنایا ہے آپ سے ہی اس کی خیر کا سائل ہوں اور جس مقصد کے لیے یہ کپڑا بنایا گیا ہے اس کی بھی خیر کا سائل ہوں اور اس کے شر سے اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کے شر سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔(ابوداؤد:4020)نوٹ :……مزید دعائیں ”کپڑوں سے متعلّق مسنون دعائیں “کے عُنوان کے تحت ملاحظہ فرمائیں ۔سولہواں ادب : اُترے ہوئے کپڑوں کو تہہ کر کے رکھنا : اُترے ہوئے کپڑوں سے متعلّق شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ اُسے ایسے ہی نہ چھوڑدے ، بلکہ لپیٹ کر رکھے ، کیونکہ حدیث کے مطابق اگر وہ کپڑے ایسے چھوڑدیے جائیں اور لپیٹ کر نہ رکھا جائے تواُن کپڑوں کو شیطان پہنتا ہے ، اور اگر لپیٹ کر رکھے جائیں تو شیطان نہیں پہن سکتا۔اطْوُوا ثِيَابَكُمْ تَرْجِعُ إِلَيْهَا أَرْوَاحُهَا، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ إِذَا وَجَدَ الثَّوْبَ مَطْوِيًّا لَمْ يَلْبَسْهُ، وَإِذَا وَجَدَهُ مَنْشُورًا لَبِسَهُ۔(طبرانی اوسط:5702)سترہواں ادب : پُرانے کپڑوں کو صدقہ کردینا : جو کپڑے انسان کی ضرورت سے فارغ ہوگئے ہوں، جیسا کہ عموماً نئے کپڑے بناتے ہوئے بہت سے پُرانے کپڑے انسان کے پہننے میں نہیں آتے اور وہ انسان کی ضرورت سے زائد ہوجاتے ہیں ، ایسے کپڑوں کے بارے میں بہتر یہی ہے کہ اُنہیں صدقہ کردیا جائے ، اِس سوچ سے اُنہیں الماریوں میں جمع کرکے نہیں رکھنامناسب نہیں کہ شاید کسی موقع پر کام آجائیں، اِس لئے کہ عموماً دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ اِس طرزِ عمل کے نتیجے میں بسا اوقات گھروں کی الماریاں ضرورت سے زائد کپڑوں سے لبالَب بھر جاتی ہیں ،اور ایک طویل زمانہ تک وہ کپڑے بغیر کسی مَصرَف کے ایسے ہی پڑے پڑے ضائع ہوتے رہتے ہیں ، حالانکہ وہی کپڑے اگر نکال کر تقسیم کردیے جاتے تو صرف ایک نہیں ، کئی کئی غریبوں، مسکینوں اور اُن کے بچوں کے تَن ڈھانکنے کے کام آسکتے تھے ۔