لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
تشبّہ بالکفار کے نتیجے میں اِسلام اور کفر کے درمیان امتیاز ختم ہوکر رہ جاتا ہے ، مسلمان اور کافر کے درمیان فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے ، جیسا کہ آجکل عموماً لوگوں کی حالت ہوچکی ہے (العِیاذ باللہ )یہ یقیناً اِسلام اور مسلمانوں کے لئے بہت ہی مُہلِک اور نقصان دہ ہے ، کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ آنے والے وقتوں میں کافروں کی مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے اِسلام کی شکل بگڑتے بگڑتے کیا سے کیا ہوجائے گی ۔ حضرت عمر کے عہدِ خلافت میں جب اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع ہوا اور قیصر و کسریٰ کا تختہ اُلٹ گیا تو حضرت فاروقِ اعظم کو یہ فکر دامنگیر ہوئی کہ عجمیوں کے ساتھ اِختلاط کی وجہ سے اِسلامی امتیازات اور خصوصیات میں کوئی فرق نہ آجائے ، چنانچہ اُنہوں نے اس کے سدِّ باب کے لئے ایک طرف مسلمانوں کو یہ تاکید کی کہ غیر مسلموں اور مُشرکین کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے سے بچیں ، اُن جیسی ہیئت ، ، لِباس اور وضع قطع اختیار نہ کریں اور دوسری جانب کافروں کے لئے بھی ایک فرمان جاری کیا کہ کفّار اپنی خصوصیات اور امتیازات میں نمایاں رہیں اور مسلمانوں کی وضع قطع اختیار نہ کریں تاکہ مسلمانوں اور کافروں میں اِلتباس اور اشتباہ نہ رہے ۔(سیرت المصطفیٰ کاندھلوی )مسلمانوں کے لئےفرمانِ فاروقی : مسلمانوں کو یہ فرمان جاری کیا کہ عیش و عشرت سے اجتناب کرو اور مُشرکین کے لِباس کو اپنانے سے بچو اور ریشم پہننے سے بچو ۔ وَإِيَّاكُمْ وَالتَّنَعُّمَ، وَزِيَّ أَهْلِ الشِّرْكِ، وَلَبُوسَ الْحَرِيرَ۔(مسلم :2069)کافروں کے لئے فرمان فاروقی : کافروں کے لئے یہ فرمان جاری کیا کہ وہ اِس بات کا عہد کریں کہ ہم کسی معاملہ میں بھی مسلمانوں کے ساتھ مشابہت اختیار نہیں کریں گے ، نہ لِباس میں ، نہ ٹوپی میں ، نہ عمامہ میں ، نہ جوتے میں ، نہ سر کی مانگ میں ، اور ہم بول چال میں مسلمانوں جیسی صورت نہیں اپنائیں گے اور نہ مسلمانوں جیسا نام اور کنیت رکھیں گے ۔ولا نتشبه بهم في شيء من لباسهم قلنسوة، أو عمامة، أو نعلين، أو فرق شعر، ولا نتكلم بكلامهم، ولا نكتنى بكناهم۔(اقتضاء الصراط المستقیم :1/363)چھٹی صورت :اِزار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا :اِسبال کا مطلب :