لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ، وَقَدْ رَقَّعَ بَيْنَ كَتِفَيْهِ بِرِقَاعٍ ثَلاثٍ، لَبَّدَ بَعْضَهَا فَوْقَ بَعْضٍ»۔(شرح السنۃ للبغوی :12/45) حضرت حسن بصری فرماتے ہیں : حضرت عمرخطبہ دے رہے تھے جبکہ وہ خلیفۃ المؤمنین تھے ، اور اُنہوں نے ایک ایسا ِازار پہنا ہوا تھا جس میں 12 پیوند لگے ہوئے تھے ۔وَعَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: خَطَبَ عُمَرُ وَهُوَ خَلِيفَةٌ، وَعَلَيْهِ إِزَارٌ فِيهِ اثْنَتَا عَشْرَةَ رُقْعَةً۔(شرح السنۃ للبغوی :12/45) احادیث مذکورہ بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺنے سادگی کو پسند بھی کیا ہے ، اختیار بھی کیا ہے اور اس کی دوسروں کو تعلیم بھی دی ہے ۔خود آپﷺکی اور آپ کے جانثارصحابہ کرام کی زندگیاں سادگی کے واقعات سے بھری پڑی ہیں ، صرف لِباس ہی نہیں ، زندگی کے تمام شعبوں اور پہلوؤں میں سادگی کا عنصر اُن کی پاکیزہ زندگیوں میں سب سے زیادہ نمایاں نظر آتا ہے ، کھانے پینے ، رہنے سہنے ، اوڑھنے بچھونے ، کھانے کمانے ، چلنے پھرنے ، ہنسنے بولنے غرض اُن کی زندگیوں کا ہر پہلو سادگی پر مبنی تھا ، تکلّف اور تصنّع تو ایسا لگتا ہے اُنہیں چھوکر بھی نہیں گزرا تھا ، سَچے سُچے لوگ تھے ، صاف اور کھری بات کرنا اُن کی عادت تھی، لگی لپٹی باتوں سے اُنہیں کوئی سرو کار نہیں تھا ، ظاہر و باطن کے تفاوت اور قول و فعل کے تضاد جسے نِفاق کہتے ہیں ، اُس سے کوسوں دور تھے ۔ اللہ کی بے شمار رحمتیں ہوں اُن پاکیزہ اور مقدّس ہستیوں پر جن کی قربانیوں اور مشقتوں کے صدقہ میں دین ہم تک پہنچا ہے ، اور ہم عزّت اور آزادی کے ساتھ اللہ کا نام لے سکتے ہیں ۔ اَللّہُمَّ اجْعَلْنَا مِثْلَھُمْ وَ ارْزُقْنَا الاِقْتِدَائَ بھَدْیِھمْ۔