لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ اورآپ کے جانثار صحابہ کرام نے کپڑوں میں سادگی کو اپنایا تھا اور تمام تر تکلّفات سے کنارہ کش رہتے ہوئے تواضع اور عجز و انکساری کے پیکر بن کر زندگی گزاری تھی ۔ اِس کی مثالیں تو بہت ہیں ، لیکن سرِ دست یہاں چند احادیث مُشتے از خروارے کے طور پر بطور نمونہ کے ذکر کی جارہی ہیں : نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے :جو شخص قدرت کے باوجود بھی تواضع کو اختیار کرتے ہوئے پر خوبصورت کپڑوں کو ترک کرے گا اللہ تعالیٰ اُسے عزّت و کرامت کا جوڑا پہنائیں گے۔مَنْ تَرَكَ لُبْسَ ثَوْبِ جَمَالٍ وَهُوَ يَقْدِرُ عَلَيْهِ تَوَاضُعًاكَسَاهُ اللَّهُ حُلَّةَ الْكَرَامَةِ۔(ابوداؤد:4778) حضرت ابوبردہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے ہمیں ایک موٹی اوڑھنے کی چادر اور ایک موٹا تہبنددکھایا اور فرمایا :اِن دو کپڑوں میں نبی کریمﷺکی وفات ہوئی ہے۔عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، قَالَ: أَخْرَجَتْ إِلَيْنَا عَائِشَةُ كِسَاءً مُلَبَّدًا، وَإِزَارًا غَلِيظًا، فَقَالَتْ:قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِﷺفِي هَذَيْنِ۔(ترمذی:1733) حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ نبی کریمﷺکا بستر (جس پر آپ سوتے تھے )چمڑے کا تھا اور اُس میں کھجور کے ریشے بھرے ہوئے تھے ۔عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: إِنَّمَاكَانَ فِرَاشُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي يَنَامُ عَلَيْهِ أَدَمٌ، حَشْوُهُ لِيفٌ۔(ترمذی: 1761) حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ نبی کریمﷺنے مجھ سے ارشاد فرمایا:اگر تم آخرت میں میرے ساتھ (درجے کے اعتبار سے )ملنا چاہو تو (تین باتوں پر عمل کرو )تمہارے لئے دنیا میں سے مسافر کے توشہ کے بقدر (ساز و سامان)کافی ہوجانا چاہیئے ، مالداروں کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے سے اجتناب کرو ، جب تک کپڑے میں پیوند نہ لگالو اُسے پُرانا مت قرار دو ۔عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِﷺ إِذَا أَرَدْتِ اللُّحُوقَ بِي فَلْيَكْفِكِ مِنَ الدُّنْيَا كَزَادِ الرَّاكِبِ، وَإِيَّاكِ وَمُجَالَسَةَ الأَغْنِيَاءِ، وَلَا تَسْتَخْلِقِي ثَوْبًا حَتَّى تُرَقِّعِيهِ۔(ترمذی: 1780) ایک دفعہ صحابہ کرام نے نبی کریمﷺکے پاس دنیا کا تذکرہ کیا، آپﷺنے اِرشاد فرمایا:کیا تم سنتے نہیں ہو،کیا تم سنتے نہیں ہو ،بے شک سادگی کو اِختیار کرنا ایمان میں سے ہے،بے شک بد حال اور شکستہ حال ہونا ایمان میں سے ہے ۔ ذَكَرَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَوْمًا عِنْدَهُ الدُّنْيَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ:«أَلَا تَسْمَعُونَ، أَلَا تَسْمَعُونَ، إِنَّ الْبَذَاذَةَ مِنَ الْإِيمَانِ، إِنَّ الْبَذَاذَةَ مِنَ الْإِيمَانِ» يَعْنِي التَّقَحُّلَ۔(ابوداؤد:4161)