امام ابن ماجہؒ فرماتے ہیں کہ میرے استاد (محمد بن علی ابو الحسن طنافسیؒ) کہتے ہیں کہ میرے استاد (عبدالرحمن جو راوی حدیث ہیں) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تو مدرس کو دی جائے تاکہ وہ درس گاہ میں بچوں کو پڑھائے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ ص۲۹۷،۲۹۸ باب فتنہ الدجال وخروج عیسیٰ ؑ)
سنن ابی دائود میں پوری حدیث تو نہیں ہے۔ البتہ ج۲ ص۲۳۷ میں اس کے مضمون کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔
علامہ ابن حجر عسقلانیؒ نے بھی کہیں کہیں فتح الباری میں اس کے کچھ اجزاء نقل فرمائے ہیں۔ علامہ حافظ ابن کثیرؒ نے اپنی تفسیر میں یہ پوری حدیث نقل فرمائی ہے۔ اور پھر اس کی تائید میں کئی روایات مسلم شریف، مسند احمد اور جامع ترمذی سے نقل کی ہیں۔
(دیکھئے تفسیر ابن کثیر ج۲ ص۴۰۷،۴۰۸)
حقیقت یہ ہے کہ خروج دجال سے لے کر نزول مسیح علیہ السلام اور ان کے دجال کو قتل کرنے تک، اگر اس پوری داستان کو Analyse کیا جائے تو ایک جز کئی کئی صحابہ کرامؓ سے مروی ہے۔ مثلاً دجال کا کانا ہونا کم وبیش چودہ صحابہ سے مروی ہے۔ جن میں یہ کبار صحابہؓ شامل ہیں:
۱… راز دار نبوت حضرت حذیفہؓ بن یمان
۲… حضرت سعد بن ابی وقاصؓ
۳… حبر الامۃ حضرت عبداﷲ بن عباسؓ
۴… حضرت ابو سعید خدریؓ
۵… صدیقہ کائنات حضرت عائشہؓ
۶… حضرت جابر انصاریؓ
۷… خادم رسولﷺ حضرت انس بن مالکؓ
۸… حضرت عبداﷲ بن عمرؓ
۹… حضرت عبادہ بن صامتؓ
۱۰… حضرت سمرہ بن جندبؓ
۱۱… حضرت سفینہؓ رضوان اﷲ علیہم اجمعین!