نطفہ ٹھہر جائے۔ اس صورت میں نسب ضائع ہو جائے گی اور یہ پتہ نہیں لگے گا کہ وہ دونوں لڑکے کس کس باپ کے ہیں۔‘‘ (آریہ دھرم ص۱۸، خزائن ج۱۰ ص۲۱)
شکر ہے کہ مرزاقادیانی نے ایک ہی شرعی مسئلے کی حکمت بیان کی ہے۔ اگر کہیں وہ فلسفہ شریعت پر ایک مستقل کتاب لکھ ڈالتے تو نہ معلوم وہ کیا کیا گل کھلاتے۔ بندۂ خدا کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ایک دفعہ حمل قرار پا جانے کے بعد رحم میں دوسرا نطفہ ٹھہرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مانا کہ مرزاقادیانی کو شریعت کا علم زیادہ نہیں تھا۔ طب تو خاندانی میراث ہونے کے علاوہ انہوں نے خود بھی پڑھی ہوئی تھی۔
بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی است
الہامی شخصیت کے چند بول
مرزاقادیانی کی تعلّی ملاحظہ ہو۔ وہ لکھتے ہیں: ’’میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۶۳، خزائن ج۳ ص۴۰۳)
’’میں زمین کی باتیں نہیں کہتا کیونکہ میں زمین سے نہیں ہوں۔ بلکہ میں وہی کہتا ہوں جو خدا نے میرے منہ میں ڈالا ہے۔‘‘ (پیغام صلح ص۶۳، خزائن ج۲۳ ص۴۸۵)
’’میں اپنی ذاتی طاقت سے کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ بلکہ مجھ میں کوئی طاقت نہیں۔ میں بغیر خدا کے بلائے بول نہیں سکتا اور بغیر اس کے دکھانے کے کچھ دیکھ نہیں سکتا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۲۷۸، خزائن ج۲۲ ص۲۹۱)
اب آسمانی روح کے آسمانی بول سنئے۔
اﷲتعالیٰ کا تصور
’’قیوم العالمین ایک ایسا وجود اعظم ہے کہ جس کے بے شمار ہاتھ اور بے شمار پیر ہیں اور ہر ایک عضو اس کثرت سے ہے کہ تعداد سے خارج اور لاانتہاء عرض وطول رکھتا ہے اورتیندوے کی طرح اس وجود اعظم کی تاریں بھی ہیں۔ جو صفحہ ہستی کے تمام کناروں تک پھیل رہی ہیں۔‘‘
(توضیح المرام ص۷۵، خزائن ج۳ ص۹۰)
مقام نبوت
’’ایک شخص جو قوم کا چوہڑہ یعنی بھنگی ہے اور ایک گاؤں کے شریف مسلمانوں کی تیس چالیس سال سے یہ خدمت کرتا ہے کہ دو وقت ان کے گھروں کی گندی نالیوں کو صاف کرنے آتا