{یہ بھی منقول ہے کہ حضرت مہدی اپنے زمانہ سلطنت میں جب دین کی ترویج کریں گے اور احیائے سنت فرما دیں گے۔ مدینہ کا ایک عالم کہ بدعت کا عامل ہوگا اور اس کو حسن سمجھ کر دین میں ملحق کئے ہوگا۔ تعجب سے کہے گا کہ یہ شخص یعنی امام مہدی ہمارے دین اسلام کو خراب کرتا ہے اور ہمارے مذہب کو برباد کرتا ہے۔}
اس عبارت کے بعد ایک جملہ یہ بھی ہے: ’’حضرت مہدی امر بکشتن آن عالم فرماید‘‘ {حضرت مہدی اس عالم کو مار ڈالنے کا حکم فرمائیں گے۔ }
مگر قادیانی مولوی نے اس جملہ سے مرزا قادیانی کی مہدیت کو کشتہ ہوتے ہوئے دیکھ کر اس کو نقل نہیں کیا۔ کیا یہ جملہ حقیقت کی تہ تک پہنچانے میں مدد نہیں کرسکتا تھا۔ یہ کیسی ایمانداری ہے؟ کہ حقیقت کی تہ تک پہنچانے کے لئے جو عبارتیں نقل کی جائیں ان میں سے کسی کا ماسبق اور کسی کا مالحق حذف کردیا جائے۔
بہر کیف میں بھی قادیانی مولوی کی اس تجویز کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں کہ مذکورہ بالا دونوں عبارتیں حقیقت کی تہ تک پہنچنے میں بہت کچھ مدد کرسکتی ہیں۔ خاص کر دوسری عبارت جس سے یہ باتیں ثابت ہوتی ہیں:
۱… حضرت امام مہدی صاحب سلطنت ہوں گے۔
۲… مدینہ کا ایک عالم آپ کو مخرب دین کہے گا۔
۳… حضرت امام مہدی اس عالم کے قتل کا حکم دیں گے۔ اگر فطری حجاب مانع نہ ہو تو آفتاب نیمروز کی طرح مرزا قادیانی آنجہانی کی مہدویت کی حقیقت منکشف ہوجاتی ہے۔ کیا قادیانی مولوی یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ مرزا قادیانی کو سلطنت ملی؟ اور انہوں نے ایک بدعتی عالم کے قتل کا حکم دیا؟ جس نے ان کو مخرب دین کہا تھا؟ اور اگر نہیں ثابت کرسکتے ہیں اور ہرگز نہیں ثابت کرسکتے۔ تو ان کو اس بات کے ماننے میں کیا عذر ہے؟کہ ان ہی کے پیش کردہ حوالے کی رو سے مرزا قادیانی کی مہدویت ہوا ہوگئی۔ ونعم ما قیل!
کیا لطف جو غیر پردہ کھولے
جادو وہ کہ سر پہ چڑھ کے بولے
تیسری بددیانتی
قادیانی مولوی اپنے رسالے کے ص۱۴۸ میں علامہ مؤلف فیصلہ آسمانی پر حدیث ارجنی ارجنی قطعت وبتنی کی نسبت یہ الزام دیتے ہیں کہ: ’’پوری حدیث اور سند نقل نہیں کی جس سے معنی