اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک انسان کا آسمانوں پر زندہ جانا اور زندہ رہنا اور آخر زمانہ میں پھر اسی جسم عنصری کے ساتھ اترآنا نہ عام انسانوں کی سنت ہے اور نہ زمانہ کے عام واقعات کے موافق ہے۔ لیکن اگر آپ یہ دو باتیں ملحوظ رکھیں کہ یہ تخریب عالم کا ایک مقدمہ ہے اور ہے بھی اس شخصیت کے متعلق جس کے دیگر حالات زندگی بھی عالم کے عام دستور کے موافق نہیں تو پھر بنظر انصاف آپ کواس میں کوئی تردد نہ ہونا چاہئے۔
مسئلہ نزول کی حیثیت کتب عقائد میں
شروع سے لے کر آج تک کتب عقائد میں اس مسئلہ کو بھی دیگر عقائد کے ساتھ ساتھ ایک عقیدہ ہی شمار کیاگیا ہے۔ حتیٰ کہ محدثین نے جو مؤلفات ترتیب دی ہیں گو ان کو عقائد کی شکل پر مرتب نہیں فرمایا۔ ان کے مقاصد دوسرے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود امام مسلم نے جن کی کتاب کو بلحاظ ترتیب بخاری شریف پر بھی فوقیت دی گئی ہے۔ نزول عیسیٰ علیہ السلام کو ابواب ایمان کا ایک جز قرار دیا ہے۔ پھر یہ کہنا کتنی کوتاہ نظری ہے کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام کا مسئلہ چونکہ ایک جزیٔ مسئلہ ہے۔ اس لئے اس کو عقائد اور ایمانیات کا مقام حاصل نہیں ہوسکتا۔
یہاں ایک عجیب بات یہ ہے کہ… نزول عیسیٰ علیہ السلام کا مسئلہ جس میں سلف سے لے کر آج تک ائمہ دین میں سے کسی کا اختلاف ثابت نہیں۔ حتیٰ کہ معتزلہ وہ بھی اس مسئلہ میں جمہور امت کے ساتھ متفق ہیں جیسا کہ زمخشری نے کشاف میں اس کی تصریح کی ہے۔
ابن عطیہ لکھتے ہیں کہ تمام امت مسلمہ کا اس پر اجماع ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اس وقت آسمان پر زندہ موجود ہیں اور قرب قیامت میں بجسم عنصری پھر تشریف لانے والے ہیں۔ جیسا کہ متواتر حدیثوں سے ثابت ہے۔ دیکھو: (بحر محیط ج۲ ص۴۷۳، ترجمان السنہ ج۳ ص۵۲۱تا۵۲۵)
اب ہم آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ اس اہم اسلامی عقیدہ کے سلسلہ میں مرزاقادیانی نے کیونکر ہیراپھیری سے کام لیا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ جس مسیح کی آمد کا امت کو انتظار ہے اگر تم وہ کسی اور کو مانتے ہو تو اس کا ذکر نہ قرآن میں ہے اور نہ حدیث میں اور پھر نہ یہ کوئی اسلامی عقیدہ ہے۔ نہ اس کا ماننا ضروری ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
الف… ’’قرآن شریف میں مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کا تو کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔‘‘
(ایام صلح ص۱۴۶، خزائن ج۱۴ ص۳۹۲)
ب… ’’مسیح کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جو ہمارے ایمانیات کی کوئی جزو یا