’’عصابتان من امتی حرزہما اﷲ من النار عصابۃ تغزو الہند۔ واخری تکون مع عیسیٰ بن مریم علیہ السلام‘‘ (سنن نسائی فضل الجہاد فی البحر ج۲ ص۵۲، مسند احمد ج۵ ص۲۷۸) {میری امت کے دو گروہ ایسے ہیں، جنہیں اﷲ تعالیٰ نے آگ سے آزاد کردیا ہے۔ ایک وہ گروہ جو ہندوستان جا کر لڑے گا اور ایک وہ گر وہ جو حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے ساتھ ہوگا۔}
حضرت ابو ہریرہؓ بھی فرمایا کرتے تھے کہ رسول اﷲﷺؓ نے ہم لوگوں سے ہندوستان کی لڑائی کا وعدہ فرما رکھا تھا۔ اگر مجھے اس میں شرکت نصیب ہوئی تو میں اس میں اپنی جان، مال خرچ کردوں گا۔ پھر اگر میں اس میں شہید ہوگیا تو میں بہترین شہداء میں سے ہوں گا۔ اور اگر بچ کر آگیا ’’فانا المحرر‘‘ تو میں آگ سے آزاد ہوجائوں گا۔ (سنن نسائی ج۲ ص۵۲)
ہم لوگوں کو غازیان ہند کی تعیین کا حق نہیں پہنچتا۔ تاہم قرائن یہ بتاتے ہیں کہ محمد بن قاسم اور اس کے رفقاء مراد ہوں گے کہ ان کی بدولت برصغیر میں اسلام کا فاتحانہ داخلہ ہوا۔ واﷲ اعلم! (محمد بن قاسمؒ کی سپاہ کی ایک مادی برکت ہمارے سامنے ہے کہ چند ہزار سپاہیوں پر مشتمل یہ سپاہ جب عراق سے سندھ کے علاقہ میں پہنچی تو اس نے دریائے سندھ اور پھر شاید دریائے چناب میں کشتیوں سے سفر کیا۔ کھجور وہ ساتھ لائے تھے۔ جہاں جہاں سے وہ لوگ گزرے اور گٹھلیاں پھینکتے چلے گئے وہاں کھجور کے باغات ہوتے چلے گئے۔ اس سے آگے تیرہ صدیوں میں بھی یہ سلسلہ نہیں پھیلا)
بہر حال وہ لوگ بڑے خو ش نصیب ہوں گے جو قیامت کے قریب سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے نزول کے وقت آپ کے ہمراہ ہوکر دجالی فتنہ کا قلع قمع کریں گے۔ سبحان اﷲ! رسول اﷲ ﷺ نے کن کن مواقع پر اور کیونکر انداز بدل بدل کر، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کی امت کو اطلاع دے دی۔ پھر بھی کچھ لو گ ’’فہم فی ریبہم یتردون‘‘ کا مصداق بن رہے ہیں۔
حضرات صوفیاء کرام اور عقیدہ نزول مسیح علیہ السلام
حضرات صوفیاء کرام قدس اﷲ تعالیٰ اسرار ہم، بے شک امت مسلمہ کے محسن ہیں۔