چلاآیا۔ اور ’’انا اخر الانبیاء وانتم اخر الامم‘‘ میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو اور لامحالہ وہ تم میں نمودار ہوگا۔ (آگے سولہ سترہ سطروں میں اس کی تفصیلات چلی گئی ہیں )
اس وقت مسلمانوں کا ایک امام ایک نیک آدمی ہوگا۔ وہ نماز پڑھانے کے لئے آگے بڑھ چکا ہوگا کہ صبح کی نماز کے وقت عیسٰی بن مریم علیہ السلام نزو ل فرمائیں گے۔ وہ امام پچھلے پائوں لوٹ آنا چاہیں گے۔ تاکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آگے بڑھ کر نماز پڑھائیں۔ وہ اپنا ہاتھ اس امام کے کندھوں کے درمیان رکھیں گے اور فرمائیں گے۔ تم آگے رہو۔ کیونکہ
جب وہ نماز سے فارغ ہو جائیں گے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے۔ (قلعہ کا) دروازہ کھول دو! در وازہ کھول دیا جائے گا تو دجال ستر ہزار یہودیوں کے ساتھ نکلا ہوا ہوگا۔ ہر یہودی مسلح ہوگا اور وردی میں ہوگا۔ جب دجال آپ کو دیکھے گا تو وہ اس طرح نرم ہوکر پگھل جائے گا جس طرح کہ نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ اب وہ بھاگنا چاہے گا۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسے (الٹی میٹم دیں گے) کہ تو میرے حملہ سے بچ نہیں سکتا۔ چنانچہ آپ اس کا تعاقب کریں گے۔ لد شرقی کے پاس اس کو جالیں گے اور اسے قتل کردیں گے۔ یوں اﷲ تعالیٰ یہود کو شکست دیں گے کوئی یہودی، اﷲ کی مخلوق میں سے کسی چیز کی پناہ لینے کی کوشش کرے گا تو وہ اسے پناہ نہیں دے گا۔ (سوائے ایک خاردار درخت کے)
(اس کے بعد رسول اﷲ ﷺ نے زمانہ خروج دجال میں نماز کے احکام اور مسائل بیان فرمائے) پھر فرمایا کہ یوں عیسیٰ بن مریم علیہ السلام میری امت میں ایک باانصاف حکمران اور عادل فرماں روا ہوں گے۔ آپ صلیب کو توڑ دیں گے۔ خنزیر کو ہلاک کردیں گے۔ (جزیہ (ٹیکس) معاف کردیں گے۔ زکوٰۃ کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔ انسانوں میں عداوت اور بغض کا خاتمہ ہوجائے گا۔ کوئی زہریلا جانور زہریلا نہ رہے گا۔ یہاں تک کہ کوئی بچی سانپ کو پکڑ لے گی تو وہ نقصان نہیں دے گا۔ بچی اگر شیر کے دانتوں میں ہاتھ ڈال دے گی تو وہ نقصان نہیں دے گا۔ بھیڑیا بکریوں میں رہ کر کتے کی طرح رکھوالی کرے گا۔ زمین امن وآشتی سے بھر جائے گی۔ جس طرح کہ برتن پانی سے بھر جاتا ہے۔ کلمہ ایک رہ جائے گا۔ اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہ ہوگی۔ جنگ کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔