مسیح اورمہدی کے بارے میں جو احادیث آئی ہیں۔مرزاقادیانی کی ذات ان پر پوری نہیں اترتی اوران کے حالات تیرہ سو سال کے مسلمہ اسلامی عقائد و افکار سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ تو مرزا قادیانی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ،سرے سے ان حدیثوں کا ہی انکار کردیا جو ان کے دعوؤں کو غلط ثابت کر تی تھیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’مولوی ثناء اﷲ صاحب کہتے ہیں کہ آپ کو مسیح موعود کی پیشگوئی کا خیال کیوں دل میں آیا۔ آخر وہ حدیثوں سے ہی لیاگیا۔ پھر حدیثوں کی اورعلامات کیوں قبول نہیں کی جاتیں۔ یہ سادہ لوح یا تو افتراء سے ایسا کہتے ہیں اور یا محض حماقت سے اور ہم اس کے جواب میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کربیان کرتے ہیں کہ میرے اس دعویٰ کی حدیث بنیاد نہیں۔ بلکہ قرآن۱؎؎ ور وہ وحی ہے جو مجھ پرنازل ہوئی۔ہاں تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۳۰،خزائن ج۱۹ص۱۴۰)
ایک اور جگہ وہ اپنے اختیارات (Powers)کا بیان ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’جو شخص حکم ہوکر آیا ہے اس کا اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرہ میں سے جس انبار کو چاہے خدا سے علم پاکر قبول کرے اورجس ڈھیر کو چاہے خدا سے علم پاکر رد کرے۔‘‘
(اربعین نمبر ۳ حاشیہ ص۱۵،خزائن ج۱۷ ص۴۰۱)
مرزا قادیانی کو یوں بااختیار اور مجاز (Authorised)مان لینے کے بعد تو کسی ماں کے لال کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ بخاری، مسلم،ابوداؤد اورترمذی کھول کر ان سے کوئی بات کر سکے۔ مرزا قادیانی اوران کے پیرو کار مانیں یا نہ مانیں،ہمیں اس سے بحث نہیں۔ ہم صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ کتاب وسنت کی بنیادوں پر جو تصورات صدیوں سے اسلامی عقائد قرار پاچکے ہیں۔ مرزا قادیانی کے دعوے ان سے میل نہیں کھاتے اورپھر وہ اپنے دعوؤں کی خاطر حدیث رسول اﷲﷺ کو توچھوڑ سکتے ہیں۔اسلامی عقائد اورافکار کو تو قربان کر سکتے ہیں۔جھوٹے دعوؤں سے دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہمارا کام تو حق وباطل کا سمجھادینا ہے اوربس۔
مسیح کی آمد کا تعلق کس کے ساتھ ہے؟
یوں تو گزشتہ اوراق سے آپ کو معلوم ہوچکا ہے کہ مسیح کی آمد کاتعلق دراصل اہل ۱؎ قرآن کا نام تو مرزاقادیانی نے تکلفاً لیا ہے۔ ورنہ تو ان کے نزدیک اصل معیار ان کی طبع زاد وحی ہے اوربس۔