: ’’انا ارسلنا الی قوم مجرمین۔ لنرسل علیہم حجارۃ من طین‘‘ {ہم قوم کے مجرمین کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ ان پر مٹی کے پتھر برسائیں۔} لیکن دوسری جگہ اس فعل کو اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’فلما جآء امرنا جعلنا عالیہا سا فلہا وامطرنا علیہا حجارۃ من سجیل منضود (ھود:۸۲)‘‘ {پھر جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے اس آبادی کے اوپر کے حصہ کو نچلا حصہ بنا دیا۔ پھر ان پر کھنگر کی قسم کے تہ بہ تہ پتھر برسائے۔}
اسی طرح سورہ حجر میں بھی اس فعل کو اپنی طرف منسوب فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وامطرنا علیہم حجارۃ من سجیل (حجر:۷۴)‘‘ {اور ان پر کھنگر قسم کے پتھر برسائے۔}
یہ اس لئے کہ فرشتوں نے جو پتھر ان پر برسائے وہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم ہی سے برسائے تھے۔ مقصد یہ کہ حمل جبرئیل امین کی پھونک سے قرار پاگیا جو انہوں نے اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے مریم علیہا السلام کی جیب (گریبان) میں پھونکی تھی اور تفاسیر کی روایات صحیح ہوگئیں اور جبرائیل علیہ السلام کا یہ تصرف بھی اس پر وضاحت کے ساتھ دال ہے۔ کہ مریم علیہا السلام کا نکاح نہیں ہوا تھا اگر نکاح ہوا ہوتا تو جبرائیل امین کے اس نفخ روح کی کوئی ضرورت نہ تھی اور جبرئیل علیہ السلام کا یہ فرمانا: ’’لا ہب لک غلما زکیا (مریم:۱۹)‘‘ {میں اس لئے آیا ہوں کہ میں آپ کو اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے ایک پاکیزہ صفت فرزند عطا کروں۔}
اگر یہ ان کا تصرف اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے نہ ہوتا تو ایسا فرمانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مریم علیہا السلام حمل قرار پا جانے کے بعد دور دراز مکان پر کیوں چلی گئی؟ کیا نکاح کرنا کوئی ناجائز بات تھی کہ جس کو چھپانے کے لئے کسی اور دوسری جگہ چلا جانا ضروری تھا۔ ہاں بغیر باپ (بچہ) پیدا ہونا یہ بات بظاہر قابل اعتراض بات تھی اور اسی حالت میں وہ اسی جگہ پر رہتی تو وہ لوگ اس کی زندگی ہی دو بھر کردیتے۔ اور ان کو وضع حمل تک وہاں چین کے ساتھ رہنا نصیب نہ ہوتا۔ کیا پتہ وہ لوگ کیا اقدام کرتے۔ اس لئے یہ بالکل قرین عقل وقیاس نظر آتا ہے کہ ان کو بہر حال وضع حمل تک تو کہیں اور جگہ ان سے بالکل الگ تھلگ جا کر رہنا چاہئے تھا۔ تاکہ وضع حمل تو خیریت سے ہو پھر جو اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کی مرضی ہوگی اسی طرح ہوگا۔
حضرت مریم علیہا السلام کی پریشانی
۵… وضع حمل کے وقت جب مریم علیہا السلام نے آنے والے طوفان کا تصور کیا تو بہت