ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے جس طرح ان امور کی نشاندہی فرمائی ہو۔ ان کو ہر وقت ذہن نشین رکھا جائے۔ تاکہ اس سے پہلے کہ سورج مغرب سے طلوع ہوا اور توبہ کے دروازے بند ہوں بنی نوع انسان یوم الحساب کی پیشی کے لئے تیار ہو۔
عقیدہ نزول مسیح علیہ السلام کے سلسلہ میں قرآن پاک کا سرسری مطالعہ
گزشتہ صفحات میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ افراط وتفریط دونوں صراط مستقیم سے دور ہوجانے کا باعث ہیں۔ سیدنا عیسیٰ مسیح ابن مریم علیہما السلام کے بارے میں دو امتیں اس طرح گمراہ ہوگئیں۔ نصاریٰ افراط کا شکار ہوگئے۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ کو اﷲ کا بیٹا قرار دے کر نہ صرف انہیں بلکہ ان کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی مریم کو بھی ’’الٰہ‘‘ بنا دیا۔ اور یہود تفریط میں مبتلا ہوکر العیاذ باﷲ ! مریم بتول پر بہتان تراشی کرنے لگے۔ خود سیدنا مسیح ابن مریم علیہ السلام کے قتل کے درپے ہوگئے، تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ مختصر یہ کہ وہ یہ کہنے لگے کہ ہم نے انہیں سولی پر چڑھا کر مار دیا ہے۔
اب آپ قرآن مجید کو ہاتھ میں لیجئے! اور ان تین سورتوں کو ملا کر پڑھیے:
۱… سورۂ اسراء جس کا دوسرا نام بنی اسرائیل ہے
۲… سورۂ کہف
۳… سورۂ مریم
ان میں سے پہلی سورت میں مختصراً معراج کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے رخ قوم بنی اسرائیل کی طرف بدل دیا گیا ہے۔ ان لوگوں کی سرکشی اور مفسدانہ۱؎ کاوشوں کا ذکر کرنے کے بعد قرآن مجید کی عظمت اور پھر چند او امرونواہی کا بیان فرمایا گیا ہے۔
درمیان میں کہیں کہیں عبرت دلانے کے لئے سابقہ امتوں کی تباہی کا ذکر آگیا ہے۔ اور اختتام اس آیت کریمہ پر ہوا ہے:
۱؎ یہاں پر یہ واضح کردینا مناسب ہوگا کہ قرآن پاک اصالتاً نہ تو تاریخ کی کتاب ہے۔ نہ جغرافیہ یا سائنس کی۔ ضمناً کوئی قصہ آجائے تو وہ اس کا بیان صرف اس حد تک کرتا ہے کہ اس سے سامعین کو عبرت دلائی جاسکے۔ تاکہ وہ اس سے سبق حاصل کریں۔ تفصیلات کے درپے نہیں ہوتا۔