پس سعدؓ چار ہزار مہاجرین اور انصار کے ہمراہ اس پہاڑ کے قریب اترے… اور چالیس رورز تک ہر نماز کے وقت اذان کہتے رہے، مگر ملاقات نہ ہوئی۔
اسی حدیث کو حضرت ابن عباسؓ کی روایت سے ازالۃ الخفا میں بھی لکھا ہے۔ دونوں حدیثیں مرفوع ہیں اور حضرت نضلہؓ تین سو سوار کے ساتھ حصول ما ل غنیمت کے لئے پہاڑ کی طرف تشریف لے گئے تھے۔ جب ان صحابہ کرامؓ کی ملاقات زریب بن برثملا سے ہوئی تو پھر بموجب حکم حضرت عمرؓ چار ہزار صحابہؓ کے ساتھ پھر اسی پہاڑ پر بغرض ملاقات زریب بن برثملا وصی حضرت عیسیٰ علیہ السلام گئے اور حدیث حضرت ابن عباسؓ قیاسی نہیں ہے، بلکہ حضرت رسول اکرمﷺ سے سن کر فرمائی۔ اس صورت میں بھی یہ حدیث مرفوع کے حکم میں ہے۔ کیونکہ حضرت ابن عباسؓ نے کئی بار قرآن شریف آنحضرتﷺ کو سنایا اور ہمیشہ آیت آیت پر استفسار عرض کرتے تھے اور بغیر تحقیق ہوجانے کے آگے نہیں پڑھتے تھے۔ (دیکھو مقدمہ تفسیر ابن کثیر)
دو مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھی حضرت ابن عباسؓ نے دیکھا اور دعا تفسیروحکمت کی ان کے حق میں فرمائی اور آپ کا خطاب حبرالامت تھا، علم تفسیر قرآن کریم ان کے برابر اور کسی کو نہیں تھا اور آنحضرتﷺ کے چچا زاد بھائی تھے۔
پس یاد رہے کہ یہ امر اجتہادی نہیں، بلکہ حضرت رسول کریمﷺ سے تحقیق شدہ ہے۔ جس کو مولوی محمد احسن امروہی قادیانی اپنی کتاب مسک العارف کے ص۲۷ میں تسلیم کرچکے ہیں۔ گویا یہ دو حدیثیں مرفوع پیش کی جاتی ہیں تاکہ مرزاقادیانی کا چیلنج بھی ٹوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے اور چار ہزار تک صحابہ کرامؓ کا اجماع بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء اور نزول من السماء کی نسبت ثابت ہوجائے۔ فہو المراد!
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات پر اجماع
اب ہم تمام مسلمانوں کا اجماع اور اتفاق اس مسئلہ مذکور پر ظاہر کرتے ہیں، تاکہ معلوم ہوجائے کہ مسلمانوں کا عقیدہ اجماعیہ اتفاقیہ کیا ہے اور مرزائیوں کا عقیدہ کیا ہے اور وہ کس گروہ میں سے ہیں؟
۱… وہ مرفوع حدیث حضرت عمر ابن الخطابؓ جس کو حضرت شیخ محی الدین ابن عربیؒ نے اپنی کتاب فتوحات مکیہ کے باب ۳۶ میں اور حضرت ابواللیث سمر قندیؒ نے اپنی کتاب تنبیہ الغافلین کے ص۲۹۶ میں اور ازالۃ الخفاء میں حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ نے تحریر فرمایا ہے۔