اب ذرا مرزا قادیانی کے وہ اقوال سامنے رکھیں جن کو ہم نے (مرزا غلام احمد کی گالیوں کے بارے میں فتویٰ) کے عنوان کے تحت درج کیا ہے۔
یعنی (گالی دینا اور بد زبانی طریق شرافت نہیں۔ بدتر ہر ایک بد سے وہ ہے جو بد زبان ہے۔ جس دل میں یہ نجاست بیت الخلاء وہی ہے۔ گالیاں دینا کمینوں اور سفلوں کا کام ہے) بتائو اب مرزا غلام احمد اپنے اقوال کے مطابق کیا بنا اور کیسا ہوا؟ اوروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت۔
مرزائی عذر
’’مرزا قادیانی نے جوابی طور پر گالیاں دی ہیں اور یہ سخت کلامی ہے۔ گالیاں نہیں ہیں۔‘‘
ابو المنصور:یہ عذر بالکل غلط ہے کیونکہ مرزا نے خود لکھا ہے۔ (میں نے جوابی طور پر بھی کسی کو گالی نہیں دی۔ (مواہب الرحمن ص۱۸، خزائن ج۱۹ ص۲۳۶) اور ناظرین پر واضح ہے کہ جو ہم نے اس سے پہلے (نوٹ) میں نقل کیا ہے۔ اگر وہ گالیاں نہیں ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ان سب الفاظ کے سزاوار ولائق مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے امتی ہیں۔ کیسا کوئی تکلیف تو نہیں ہوگی؟
مرزا غلام احمد قادیانی کا انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی توہین کرنا
تصویر کا پہلا رخ
انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی توہین کرنے والے کے متعلق مرزا قادیانی کا فتویٰ:
۱… ’’اسلام میں کسی نبی کی تحقیر کفر ہے ۔‘‘ (خاتمہ چشمہ معرفت ص۱۲، خزائن ج۲۳ ص۳۹۰)
۲… ’’وہ بڑا ہی خبیث اور ملعون اور بدذات ہے جو خدا کے برگزیدہ ومقدس لوگوں کو گالیاں دیتا ہے۔‘‘ (ملفوظات ج۱۰ ص۴۰۹)
۳… ’’نبی کی عصمت ایک اجتماعی عقیدہ ہے۔ نبی کے لئے معصوم ہونا ضروری ہے۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ سوم ص۱۱۵ روایت نمبر۶۶۴)
نوٹ: ان تین حوالوں کے باوجود مرزا قادیانی نے جو دریدہ دہنی سے کام لیا ہے اور انبیاء کی توہین کی ہے۔ اس کو کوئی حلیم سے حلیم شخص بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ بشرطیکہ ایماندار ہو۔ خصوصاً حضرت عیسیٰ روح اﷲ اور کلمۃ اﷲ علیہ الصلوٰۃ والسلام اور ان کی والدہ ماجدہ طیبہ طاہرہ صدیقہ حضرت مریمؓ کی شان اقدس میں تو وہ کلمات بیہودہ استعمال کئے ہیں جن کے ذکر سے مسلمانوں کے دل ہل جاتے ہیں۔ مگر ضرورت زمانہ مجبور کررہی ہے کہ لوگوں کے سامنے ان میں سے کچھ بطور نمونہ ذکر کئے جائیں۔