مرزاقادیانی کے وحی کے متعلق چند گذارشات
یوں تو مرزاقادیانی کی وحی کے مختلف کرشمے قارئین کے ملاحظہ سے گذر چکے ہیں۔ لیکن خصوصیت کے ساتھ ہم یہاں چند باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں۔
اوّل یہ کہ قرآن شریف میں آتا ہے: ’’وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ‘‘ {ہم نے جو بھی رسول بھیجا وہ اپنی قوم کی زبان کے ساتھ آیا۔}
مرزاقادیانی خود بھی فرماتے ہیں: ’’اور یہ بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی ہو اور الہام اس کو کسی اور زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۲۰۹، خزائن ج۲۳ ص۲۱۸)
مرزاقادیانی کی علاقائی زبان پنجابی، برصغیر کے بیشتر حصوں میں بولی جانے والی زبان اردو، لیکن انہیں الہامات ہوتے ہیں۔ عربی، فارسی یا انگریزی میں جب کہ انگریزی الہامات کے معنی معلوم کرنے کے لئے انہیں ہندو لڑکوں تک کا محتاج ہونا پڑتا تھا۔ یہ کیا معاملہ ہے؟
عربی، فارسی، اردو اور انگریزی کا معجون مرکب دیکھنا ہو تو مرزاقادیانی کے الہامات کا مطالعہ کیجئے۔
دوم یہ کہ مرزاقادیانی ایک مقام پر انجیل کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’انجیل درحقیقت بائبل اور طالمود کی عبارتوں سے ایسی پر ہے کہ ہم لوگ محض قرآن شریف کے ارشاد کی وجہ سے ان پر ایمان لاتے ہیں۔ ورنہ اناجیل کی نسبت بڑے شبہات پیدا ہوتے ہیں۔‘‘
(چشمہ مسیحی ص۲۹، خزائن ج۲۰ ص۳۵۷)
بعینہ یہی کیفیت مرزاقادیانی کے الہامات کی ہے۔ آپ حقیقت الوحی یا حمامتہ البشریٰ وغیرہ کو اٹھا کر دیکھ لیں۔ قرآنی آیات ہی میں جنہیں آگے پیچھے مختصر سی ترمیمات کے ساتھ مرزاقادیانی نے اپنے الہامات میں پیش کیا ہے۔ پس چہ فرمایند علماء دین دریں بارہ؟
سوم یہ کہ ایک نبی کے الہامات میں کہیں کہیں پہلی آسمانی کتابوں سے قطعات کا آجانا تو کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن یہ بات حیرت انگیز ہے کہ مرزاقادیانی کے الہامات میں ریشم کے ساتھ ٹاٹ کے پیوند کی طرح آیات اور احادیث کے بیچوں بیچ کہیں تو سعدی کا کلام جڑا ہوا ہے۔