جسارت کی۔ مرزا قادیانی نے یہ تحریک کیوں اٹھائی؟ہوں گے ان کے مفادات وابستہ اس سے۔ یہ تو ہمارا فرض ہے کہ اﷲ نے ہمیں عقل دی ہے اس سے کام لے کر ہم سوچیں سمجھیں ۔اس کا تانا بانا دیکھیں اور پھر اس کے رد یا قبول کرنے کافیصلہ کریں۔
ایک ضروری وضاحت
شاید اس جگہ قارئین کو یہ خیال گزرے کہ مسلمانوں اورمرزائیوں کے درمیان اصل متنازع فیہ امر ،مرزاقادیانی کا دعویٰ نبوت ہے۔ تو ہم نے اسے کیوںنظرانداز کردیا ہے۔ اس لئے ہم یہ وضاحت کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ مرزاقادیانی کا دعویٰ نبوت ایک لحاظ سے ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ انہیں بخوبی معلوم تھا کہ قصر نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور اب سیدھے راستے سے نبوت کے محفوظ قلعہ میں داخل ہونا ناممکن ہے۔ تو انہوں نے ’’چور دروازہ‘‘بنا کر اندرگھسنے کی کوشش کی۔چنانچہ انہوں نے کبھی تو مسیح موعود کی شکل میں نبوت کا روپ دھارا ۔ کبھی محدث اورملہم بن کر۔ پھر جھوٹ کو سچ کر دکھانے کے لئے انہوں نے ظلی اوربروزی وغیرہ اصطلاحات کاسہارا لیا۔بہر حال ان کے دعویٰ نبوت کی جواصل بنیاد ہے اب اگر ہم اس بنیاد ہی کو ڈھا دیں تو اس پر تعمیر شدہ عمارت خود بخود نیچے آگرے گی۔لہٰذا ہم نے ان کے انہی دعاوی کو موضوع بحث بنایا ہے جو مرزائیت کے لئے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
کیامرزاقادیانی مسیح موعود ہیں؟
قادیانی صاحبان کی ایک عام تیکنیک ہے کہ ان سے قادیانیت کے موضوع پر گفتگو ہو تو وہ فوراً حیات مسیح علیہ السلام کا مسئلہ زیر بحث لے آتے ہیں اور تمام تر زور یہ ثابت کرنے میں صرف کر دیتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ مسیح ابن مریم علیہما السلام جو بنی اسرائیل کی طرف اﷲ کے رسول بن کرآئے تھے،وہ وفات پاچکے ہیں۔ قادیانیوں کے نزدیک جو اہمیت اس مسئلہ کو حاصل ہے اس کا اندازہ مرزابشیراحمد (یہ صاحب مرزاغلام احمد قادیانی کے صاحبزادے ہیں) کے اس قول سے ہو سکتا ہے: ’’حضرت مرزاغلام احمد قادیانی بانی سلسلہ احمدیہ کے دعوائے مسیحیت کے راستہ میں سب سے پہلا سوال حضرت مسیح ناصری(بنی اسرائیلی) کی وفات کا ہے۔ کیونکہ جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ پہلا مسیح فوت ہوچکا ہے۔ اس وقت تک خواہ حضرت مرزاقادیانی کے دعویٰ کی صداقت پرہزارسورج چڑھادیاجائے،طبیعت میں ایک گونہ خلجان ضرور رہتا ہے۔ جس منصب کا