سے مسمی ہوکر میں رسول بھی ہوں اور نبی بھی ہوں۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۷، خزائن ج۱۸ ص۲۱۱)
۳… ’’اور اس طور سے خاتم النبیین کی مہر محفوظ رہی کیونکہ میں نے انعکاس اور ظلی طور پر محبت کے آئینہ کے ذریعے سے وہی نام پایا اگر کوئی شخص اس وحی الٰہی پر ناراض ہوکہ کیوں خدائے تعالیٰ نے مجھے میرا نام نبی ورسول رکھا ہے۔ تو یہ اس کی حماقت ہے۔ کیونکہ میرے نبی اور رسول ہونے سے خدا کی مہر نہیں ٹوٹتی۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۷، خزائن ج۱۸ ص۲۱۱)
۴… ’’خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول یعنی اس عاجز کو ہدایت اور دین حق اور تہذیب اخلاق کے ساتھ بھیجا۔‘‘ (اربعین ج۳ ص۳۶، خزائن ج۱۷ ص۴۲۶)
مرزا بقول خود کیا ٹھہرا
مرزا غلام احمد قادیانی نے مدعی نبوت کے بارے میں خود کہا ہے کہ میں مدعی نبوت کو مسلیمہ کذاب کا بھائی، کا فروخبیث کہتا ہوں اور اس پر لعنت بھیجی ہے اور کہا ہے کہ میں مدعی نبوت کو دائرہ اسلام سے خارج جانتا ہوں۔ جیسا کہ ہم تصویر کے پہلے رخ میں حوالہ جات نقل کر آئے ہیں اور تصویر کے دوسرے رخ میں مرزا کا دعویٰ نبوت بھی نقل کر آئے ہیں۔ اب مرزائی بتائیں کہ مرزا اپنے اقوال سے کیا ٹھہرا؟
نوٹ: چونکہ نبوت کا مسئلہ مرزائی بہت لمبا لے جاتے ہیں اور مرزا کی ایسی بہت سی عبارتیں ایک دوسرے کیخلاف ہیں۔ کسی میں ظلی نبوت کا اقرار کسی میں تشریعی نبوت کا اقرار اور کہیں تشریعی کا انکار کہیں بروزی نبوت کا اقرار اور کہیں سراپا نبوت کا انکار اور دعویٰ مجددیت اور کہیں دعویٰ مسیحیت وغیرہ منافقانہ چال سے کام لیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ مرزائیو کے دو گروہ ہیں ایک لاہوری پارٹی جو مرزا کو مجدد جانتی ہے اور مرزا کی نبوت سے انکار کرتی ہے اور ربوہ والی پارٹی مرزا کو نبی مانتی ہے اور انکار کرنے والے کو کافر گردانتی ہے۔ اس لئے اس مختصر میں بحث نبوت کی گنجائش نہیں ہے۔ انشاء اللہ دوسرے حصہ میں ختم نبوت کا مفصل بیان کیا جائے گا اور اب میں ایک عبرتناک مباہلہ نقل کرکے اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں۔
مباہلہ کی حقیقت
مباہلہ اسلام میں حق وباطل کے فیصلہ کا آخری طریقہ ہے جب کوئی گمراہ ہر طرح سمجھانے کے باوجود اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے باز نہ آئے تو اس سے مباہلہ کے ذریعے فیصلہ کیا جاتا ہے۔ شریعت میں اس کی صورت یہ ہے کہ فریقین اپنے اہل وعیال کے ہمراہ ایک کھلے میدان