خیز اورنامعقول (Unsensible and unreasonable)ہے۔پڑھئے اور سر دھنئے: ’’خدا نے براہین احمدیہ کے تیسرے حصے میں میرا نام مریم رکھا… دوبرس تک صفت مرمیت میں میں نے پرورش پائی اورپردے میں نشو ونما پاتارہا۔ پھر جب اس پر دو برس گزر گئے تو …مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایاگیا اور آخر کئی مہینوں کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں…مجھے مریم سے عیسیٰ بنایاگیا۔ پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا۔‘‘ (کشتی نوح ص۴۷،خزائن ج۱۹ص۵۰)
مرزا قادیانی کا یہ بیان خاصا طویل ہے۔ہم اتنے حصہ پر اکتفا کرتے ہیں:
قیاس کن زگلستان من بہار مرا
اب اگر کوئی یہ پوچھ لے کہ جناب!اگر آپ نے ’’ابن مریم‘‘ بننا تھا تو چاہئے یہ تھا کہ جناب کی والدہ ماجدہ میں پہلے مریمی صفات آتیں، نہ کہ آپ میں۔(یہ دوسری بات ہے کہ آپ کی حقیقی والدہ نہیں تو ان کی کوئی مثیل ہوتیں) وہی حاملہ ہوتیں۔ وہی ’’اجاء ھا المخاض‘‘ کا مصداق بنتیں یعنی دردزہ کی مثالی کیفیت سے انہیں واسطہ پڑتا اور پھر انہی سے آپ کاظہور ہوتا۔ پھر تو شاید کوئی بات بھی بن جاتی۔لیکن یہ وحدۃ الوجودی فلسفہ،یعنی مولود اور والدہ کا ایک ہونا، نہ حکماء اشراقیین پیش کر سکے ہیں نہ مشائین،ایسی نکتہ سنجی تو نہ علماء اسلام کے حصے میں آئی ہے نہ دانایان یورپ کے۔ بہت ممکن ہے کہ اس اعتراض کے جواب میں قادیانی ٹکسال سے نکلنے والے فضلاء کچھ موشگافیاں کرنے لگیں۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ فلسفہ پیغمبرانہ دعوت کے نام پر عقل وخرد کے منہ چڑانے کے مترادف ہے اور بس۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول اکرمﷺ نے پہیلیوں سے منع فرمایا ہے۔ ’’نھی عن الاغلوطات‘‘اور یہاں یہ حال ہے کہ مرزا قادیانی کی دعوت کی بنیادہی پہیلیوں اور لفظی گورکھ دھندوں پر ہے۔ افلاتعقلون؟
مرزاقادیانی کے حافظہ کی خرابی یا ان میں دیانت کی کمی
یوں تو مرزا قادیانی کی کتابوں میں بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ وہ ’’محو و اثبات‘‘ سے کام لیتے ہیں۔ یعنی ضرورت کے مطابق کبھی تو وہ ایسی چیزوں کا انکار کر دیتے ہیں جو کتاب وسنت میں وارد ہیں یا اقوال علماء سے ثابت ہیں اور کبھی ایسی چیزیں قرآن وحدیث کی طرف منسوب کر دیتے ہیں جو نہ تو اﷲ نے کہی ہوتی ہیں اور نہ اس کے رسولؐ نے۔ وہ ایسا کیوں