اب گویا جناب مرزاقادیانی مستقل طور پر رسالت مآب بن گئے۔ رہ گیا یہ سوال کہ مستقل رسول کے لئے صاحب شریعت ہونا ضروری ہے تو مرزاقادیانی اپنے آپ کو شریعت کا حامل بھی ثابت کرنے کے لئے تیار ہیں۔ (اربعین نمبر۳ ص۷، خزائن ج۱۷ ص۳۹۲)
یہاں تک پہنچنے کے بعد مرزاقادیانی نے اپنا حق سمجھا کہ وہ تمام ان لوگوں کو جو انہیں مسیح موعود نہیں مانتے کافر قرار دیں۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: ’’کفر دو قسم پر ہے (اوّل) ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرتﷺ کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔‘‘
(دوم) دوسرے یہ کفر کہ مثلاً مسیح موعود کو نہیں مانتا۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں تو کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں۔ (حقیقت الوحی ص۱۷۹، خزائن ج۲۲ ص۱۸۵)
عقیدۂ نزول مسیح علیہ السلام
مناسب بلکہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر ہم تھوڑا سا اس بارے میں بھی بیان کر دیں۔ شیخ الحدیث مولانا بدرعالمؒ میرٹھی کی ترجمان السنۃ اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس موضوع پر جو کچھ انہوں نے تحریر فرمایا ہے اسے پڑھ کر دل سے ان کے حق میں دعا نکلتی ہے کہ ایک ایسا مسئلہ جو سائنسی ترقی کے دور میں ضعیف الایمان آدمی کو شک وشبہ میں ڈال سکتا ہے انہوں نے اس قدر واضح فرمادیا ہے کہ اس کے بعد تمام شکوک وشبہات دور ہوکر دل کو سکون اور اطمینان حاصل ہو جاتا ہے۔ ان کے طویل مقالہ سے ہم جستہ جستہ چند اقتباسات نقل کرتے ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول قیامت کی بڑی علامت ہے اس لئے اس کو
عالم کے تعمیری نظم ونسق کی بجائے تخریب عالم کے نظم ونسق پر قیاس کرنا چاہئے
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات طیبہ میں رفع ونزول کی سرگزشت بے شک عجیب تر ہے۔ لیکن اس پر غور کرنے سے قبل سب سے پہلے یہ سوال سامنے رکھنا چاہئے کہ یہ مسئلہ کس دور اور کس شخصیت کے ساتھ متعلق ہے۔ کیونکہ دنیا کے روزمرہ کے معمولی واقعات بھی زمانہ اور شخصیتوں کے اختلاف سے بہت مختلف ہو جاتے ہیں اور ان کی تصدیق وتکذیب میں بڑا فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ اسی زمین پر ایک خطہ زمین ایسا بھی ہے جہاں مہینوں کی رات اور مہینوں کا دن ہوتا ہے اور ان ہی سمندوں میں ایک ایسا سمندر بھی ہے جس پر مسافر موسم سرما میں خشکی کی طرح سواریوں پر چلتے ہیں۔ اسی طرح انسانوں کا اختلاف بھی ہے… لہٰذا مسئلہ نزول پر بحث کرنے کے وقت بھی سب سے پہلے اس پر غور کر لینا ضروری ہے کہ یہ واقعہ کس دور اور کس زمانہ سے پھر کس شخصیت سے متعلق ہے۔