کریں۔ اگر بولیں تو کیا بولیں۔ اگر لکھیں تو کیا لکھیں۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۱۰۳، خزائن ج۱ص۹۳)
ٹھہرے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
(ہ)مرزاقادیانی کے چند اور ہفوات ملاحظہ ہوں: ’’دنیا میں کوئی نبی نہیں گزرا۔ جس کا نام مجھے نہیں دیا گیا۔ سو جیسا کہ براہین احمدیہ میں خدا نے فرمایا ہے کہ میں آدم ہوں، میں نوح ہوں، میں ابراہیم ہوں، میں اسحق ہوں، میں یعقوب ہوں، میں اسماعیل ہوں، میں موسیٰ ہوں، میں داؤد ہوں، میں عیسیٰ بن مریم ہوں، میں محمدﷺ ہوں، یعنی بروزی طور پر۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۸۵، خزائن ج۲۲ ص۵۲۱)
مسئلہ عصمت انبیاء علیہم السلام
عقیدہ رسالت کے سلسلہ میں دوسراقابل غور مسئلہ عصمت انبیاء علیہم السلام کا ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک حضرات انبیاء علیہم السلام معصوم یعنی گناہوں سے بالکل پاک ہیں۔ کتب تفسیر، شروح حدیث اور کتب عقائد میں یہ مسئلہ پوری تفصیل سے موجود ہے۔ شیخ الحدیث مولانا بدر عالم صاحبؒ میرٹھی نے اپنی بے نظیر تصنیف ترجمان السنہ میں اس مسئلہ پر بڑی بسط سے کلام کیا ہے۔ اس کا ایک ایمان افروز اور روح پرور اقتباس ہدیہ قارئین ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ نبوت اور عصمت ایک ہی حقیقت کے دو اعتبارات سے دو نام ہیں۔ اس لئے کہ نبوت کسب وریاضت سے بتدریج حاصل ہونے والی نعمتوں میں سے نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ ممکن تھاکہ نقص سے کمال تک کی راہ طے کرنے میں معصیتوں کی ٹھوکریں لگ جائیں۔ لیکن جہاں کسب واکتساب کا ذرا دخل نہ ہو اور معاملہ براہ راست خداتعالیٰ کے اجتباء واصطفاء کا آجائے پھر وہاں کسی ٹھوکر کا احتمال کیا ممکن۔‘‘
حضرت مجدد صاحبؒ فرماتے ہیں: ’’ازفتن تابردن فرق ظاہر است۔‘‘ یعنی خود چلنے میں اور کسی دوسرے کے لئے چلنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ صفت اجتباء واصطفاء کے تحت پروردہ خود نہیں چلتے کہ بشری ضعف ان کے لئے ٹھوکر بن جائے۔ یہاں ان کو بچا بچا کر خود قدرت لے چلتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: ’’اﷲ یصطفی من الملائکۃ رسلاً ومن الناس (الحج)‘‘ یعنی اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے جو نوع ملکی اور نوع بشری میں سے اپنی رسالت کے لئے انتخاب براہ