سزا میں گرفتار ہوگا۔ یعنی فی الفور ہلاک ہوگا۔‘‘ مذکورہ بالا اقتباسات سے مفصلہ ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں۔
۱… بعض الاقاویل سے بعض باتیں مراد ہیں کل اقاویل یا آیات تامہ طویلہ مراد نہیں۔
۲… یہ آیت سچے رسول کے بارے میں ہے۔ جھوٹے مدعیان نبوت اس میں داخل نہیں ہیں۔
۳… سچا رسول اگر کچھ بھی افتراء کرے تو فوراً ہلاک ہو۔ اس کو کچھ بھی مہلت نہیں مل سکتی۔
۴… جھوٹے مدعیان نبوت کے کلام سے سلسلہ نبوت ورسالت میں کوئی اشتباہ نہیں واقع ہوسکتا ہے اور ان امور کے ثابت ہونے سے قادیانی مولوی کا یہ کہنا کہ بعض الاقاویل سے ہذالقرآن مراد ہے اور یہ آیت سچے اور جھوٹے دونوں قسم کے رسولوں کو شامل ہے اور آیت کے معنی کی صحت کے لئے ۲۳ برس کی مدت معیار ہے اور جھوٹے رسول کے کلام سے سلسلہ رسالت ونبوت مشتبہ ہوجاتا ہے۔ محض لغو اور باطل ہوگیا۔ فالحمد ﷲ علیٰ ذالک!
نویں بددیانتی
علامہ ممدوح نے آیت کریمہ ’’یصبکم بعض الذی یعد کم‘‘ کے متعلق چند توجیہیں لکھی ہیں۔ منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ یہاں پر بعض کو بمعنی کل لینا چاہئے۔
کیونکہ بعض بمعنی کل بھی آیا ہے۔ قادیانی مولوی، علامہ ممدوح کے اس قول کو غلط ثابت کرنے کے لئے اپنے رسالہ کے ص۹۰ میں بیضادی کا یہ قول نقل کرتے ہیں۔
’’تفسیر البعض بالکل کقول لبید۔ مردود‘‘ یعنی تفسیر بعض کی کل کے ساتھ جیسا کہ قول لبید میں ہے مردود ہے۔‘‘
اور تفسیر فتح البیان میں میں علامہ ممدوح کے قول کی مطابق اس آیت کے متعلق جو یہ لکھا ہے۔
’’والبعض قد یستعمل فی لغت العرب بمعنی الکل‘‘
’’ اوربعض کبھی لغت عرب میں کل کے معنی ہیں استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘
اس کا یہاں پر ذکر تک نہیں کرتے اور اپنی کمال تقویٰ شعاری اور دیانت داری سے صاحب فتح البیان کے اس قول کو بعض الاقاویل کے تحت میں ذکر کرتے ہیں اور بعض بمعنی کل لیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ مولوی صاحب فتح البیان والے کے اس قول (والبعض قد یستعمل فی لغۃ العرب بمعنی الکل) کو صحیح مانتے ہیں یا نہیں؟ اس بر تقدیر اول علامہ ممدوح کے قول کو تسلیم کرلینا ہے اور بیضادی کا قول پیش کرنا محض لغو ہے اور بر تقدیر ثانی بعض الاقاویل کے تحت میں اس