مرزاقادیانی کا تفسیر بالرائے سے اپنا کام نکالنا
مرزاقادیانی نے اپنے آپ کو مسیح موعود ثابت کرنے کے لئے ایک حربہ تفسیر بالرائے کا استعمال کیا ہے اورخوب اس سے کام لیا ہے۔ شرعاً تفسیر بالرائے کتنا بڑاجرم ہے۔اس کا اندازہ آنحضرتﷺ کے اس فرمان سے لایا جا سکتا ہے کہ: ’’من قال فی القران برأیہ فلیتبوأ مقعدہ من النار (مشکوٰۃ ص۳۵)‘‘{جس نے محض اپنی رائے سے قرآن کے بارے میں کچھ کہا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔}
افضل ھذہ الامۃ سیدناابوبکر صدیقؓ ارشاد فرماتے ہیں:’’نہ مجھے آسمان سایہ دے اور نہ زمین مجھے اپنے اوپر جگہ دے،اگر میں قرآن کے بارے میں محض اپنی رائے سے کچھ کہہ دوں۔‘‘
لیکن مرزا قادیانی بلادریغ یہ ہتھوڑا چلائے جاتے ہیں۔چند نمونے ہدیہ قارئین ہیں:
۱… ’’واذاالرسل اقتت‘‘’’اور جب رسول وقت مقررہ پر لائے جائیں گے۔ یہ اشارہ درحقیقت مسیح موعود کے آنے کی طرف ہے اوراس بات کا بیان مقصود ہے کہ ’’وہ عین وقت پر آئے گا۔‘‘ (شہادت القرآن ص۲۴،خزائن ج۶ص۳۱۹)
پھر مرزاقادیانی کے دل میں یہ خطرہ گزرا کہ مبادا کوئی ملا،مولوی اعتراض کر دے کہ جناب اس آیت میں تو ’’الرسل‘‘جمع کا لفظ ہے اورآنے والے مسیح تو ایک ہی ہیں۔ دوسرے یہ کہ یہاں تو ’’رسل‘‘کا لفظ آیا ہے اوربقول آپ کے مسیح موعود رسول نہیں ہوگاتومرزا قادیانی نے اس اعتراض کورفع کرنے کی یوں کوشش کی: ’’اور یاد رہے کہ کلام اﷲ میںرسل کا لفظ واحد پر بھی اطلاق پاتا ہے اور غیر رسول پر بھی اطلاق پاتاہے۔‘‘
(شہادت القرآن ص۲۴،خزائن ج۶ص۳۱۹)
کاش!مرزاقادیانی قرآن وحدیث سے کوئی مثال پیش کردیتے جہاں ’’رسل‘‘ جمع کاصیغہ آیا ہو اور مراد ایک ہی فرد ہو۔ پھر وہ غیر رسول کے لئے استعمال ہورہاہو؟جہاں تک ہم جانتے ہیں۔ قرآن مجید میں ’’رسل‘‘کالفظ ۸۲ مرتبہ آیا ہے اوران میں سے کوئی ایک مقام بھی ایسا نہیں ہے جہاں ایک رسول یاغیر رسل مراد ہو۔
ممکن ہے کہ مرزاقادیانی اس حد تک عربی گرائمر میں ترمیم کر کے قرآنی الفاظ کو اپنی ڈھب پرلانے میں کامیاب ہوجاتے۔ لیکن ایک خطرے نے انہیں پھر چونکا دیا کہ شاید کوئی کہہ دے کہ صاحب!جس آیت سے آپ مسیح موعود کی آمد ثابت کرناچاہتے ہیں۔اس کے بعد متصل