پڑھ چکے ہیں جو مرزاقادیانی نے قرآن وحدیث کی طرف منسوب کی ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم اور کتب حدیث میں کہیں ایسی پیش گوئیوں کا ذکر نہیں ہے۔
۲… مرزاقادیانی شہادۃ القرآن میں فرماتے ہیں: ’’وہ خلیفہ جس کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کے آواز آئے گی۔ ’’ہذا خلیفۃ اﷲ المہدی‘‘ اب سوچو کہ یہ حدیث کس پایۂ اور مرتبہ کی ہے جو ایسی کتاب میں درج ہے۔ جو اصح الکتب بعد کتاب اﷲ ہے۔‘‘
(شہادۃ القرآن ص۴۱، خزائن ج۶ ص۳۳۷)
صحیح بخاری ہر عربی مدرسہ میں اور ہر عالم کے پاس موجود ہے۔ لے کر دیکھ لیجئے کہیں بھی اس حدیث کا نشان نہیں ملے گا۔ مندرجہ بالا پانچ گزارشات سے یہ حقیقت بالکل آشکارا ہوجاتی ہے کہ جن عبارات کو مرزاقادیانی وحی آسمانی اور الہامات خداوندی بنا کر پیش کرتے ہیں ان کا سرچشمہ مرزاقادیانی کا اپنا دماغ ہے۔
مرزائیت کا سنگ بنیاد
محترم قارئین! یہ بات آپ پر بخوبی واضح ہوچکی ہے کہ عقائد اور اعمال غرض دین کے ایک ایک جز میں (بقول مرزاقادیانی) اختلاف کی وجہ سے مرزائی مسلمان تو نہیں ہیں۔ اب آپ مثبت پہلو میں یہ معلوم کرنا چاہتے ہوں گے کہ مرزائیت کا خمیر کیونکر تیار ہوا۔ اس کا پودا کس نے لگایا۔ پھر اس کی نشوونما کس طرح ہوئی؟ سو معلوم رہے کہ:
۱۸۵۷ء کے بعد جب برصغیر پاک وہند پر انگریز کا قبضہ ہوگیا اور دردمند مسلمان کے مجاہدانہ جذبات وقتاً فوقتاً انگریزی حکومت کے لئے پریشانی کا باعث بنتے تھے تو ۱۸۶۹ء میں ایک کمیشن تحقیقات کے لئے لندن سے ہندوستان آیا۔ ۱۸۷۰ء میں لندن میں ایک کانفرنس ہوئی جس میں کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کی اور عیسائی مشنری کے جو پادری ہندوستان میں کام کر رہے تھے وہ بھی بطور خاص کانفرنس میں شامل ہوئے اور انہوں نے الگ اپنی رپورٹ پیش کی۔ یہ تمام کارروائی کتابی صورت میں شائع ہوئی۔ کتاب کا نام ہے (The Arrival of British Empire in India.) ’’دی ارائیول آف برٹش ایمائر ان انڈیا‘‘ کمیشن کی رپورٹ کا مندرجہ ذیل اقتباس قابل غور ہے۔