سے نقل کی ہے۔ جس کے بارے میں ہم مفصل گفتگو پھر کبھی کریںگے۔اس کے متعلق مرزا قادیانی تحریر کرتے ہیں:’’شک نہیں کہ یہ حدیث پیغمبرخداﷺ کی ہے اوراس حدیث کے لئے اور بھی طریق ہیں جو اس کی صحت پر دلالت کرتے ہیں اورقرآن نے اس کی تصدیق کی ہے۔ پس بجز ملحد فتنہ انگیز کے اورکوئی اس کا انکار نہیں کرے گا اوربجز ظالم کے کوئی مکذب نہ ہوگا۔ ‘‘
(نورالحق عربی مع اردوج۲ص۱۶،خزائن ج۸ص۲۰۵)
اب آپ یہ سوال قادیان یا ربوہ کے دارالحدیث(اگرکوئی ہوتو) سے کیجئے کہ مرزا قادیانی صحاح ستہ جیسی معتبر کتب حدیث کی رویات کو تو مجروح اورغیر معتبر قرار دیتے ہیں۔ لیکن جو اہراسرار جیسی گمنام اور مفقود الخبر کتاب کی روایت یا دارقطنی کی مقطوع السند (جس کی سند رسول اﷲﷺ تک نہیں ملتی)روایت کو صحیح ٹھہراتے ہیں۔ کس قاعدہ اورضابطہ کے تحت؟جواہر الاسرار مرزاقادیانی کے بیان کے مطابق ۸۴۰ھ کی تصنیف ہے اوراﷲ ہی جانتا ہے کہ وہ کس علم کی اورکس درجے کی ہے۔ علماء اسلام نے تویہاں تک احتیاط سے کام لیا ہے کہ علم حدیث کی وہ کتابیں جو شاہ ولی اﷲ دہلویؒ کی تقسیم کے مطابق چوتھے طبقہ میں آتی ہیں،ان کی روایات سے بھی استدلال صحیح نہیں ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: ’’فالا نتصاربھا غیر صحیح فی معارک العلماء بالحدیث (حجۃ اﷲ البالغہ ج۱ص۱۳۵)‘‘{علماء حدیث کے معرکۃ الآراء مسائل ہیں۔ ان سے امداد لینا درست نہیں ہے۔}
شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلویؒ فرماتے ہیں: ’’ایں احادیث قابل اعتماد نیستند کہ براثبات عقیدہ یاعملے بآنہاتمسک کردہ شود (عجالہ نافعہ ص۷)‘‘{یہ حدیثیں اس قابل نہیں ہیںکہ کسی عقیدہ یا فقہی مسئلہ کے ثابت کرنے میںان کو بطور دلیل پیش کیا جاسکے۔}
مہدی کے بارے میں مرزاقادیانی کاسفیدجھوٹ
مرزا قادیانی کی یہ تیکنیک تعجب خیز ہی نہیں،سخت افسوس ناک بھی ہے کہ اپنی بات کو سچا ثابت کرنے کے لئے وہ افتراء پردازی اوردروغ گوئی تک سے نہیں چوکتے۔دعویٰ مہددیت کے سلسلہ میں ان کا ایک سفید جھوٹ ملاحظہ ہو: ’’اگر حدیث کے بیان کے اعتبار ہے تو پہلے ان حدیثوں پر عمل کرنا چاہئے جو صحت اور وثوق میں اس حدیث(کہ خلافت تیس سال تک ہوگی)پرکئی درجہ بڑھی ہوئی ہیں۔ مثلاً صحیح بخاری کی وہ حدیثیں جن میںآخری زمانہ میں بعض