مثل حضرت بایزید بسطامی وحضرت منصور نے حالت سکر میں ’’انا الحق اور ما اعظم شانی‘‘کلمات ادا ہوئے لیکن ان کلمات کی ان کو بھی خبر نہیں۔ چنانچہ مریدوں نے حضرت بایزید پر اعتراض کیا۔ جواب دیا کہ اگر میری زبان سے یہ کلمات نکلیں تو مجھ کو قتل کرڈالو۔
یہ حضرات حالت سکر میں اگر کچھ کہتے تھے تو حالت سہو میں اس کا اعادہ تو درکنار وہ یاد بھی نہیں ہوتا تھا۔ مگر مرزا قادیانی نے اگر بالفرض حالت سکر میں یہ کلمات ادا کئے تو حالت سہو میں ان کا اعادہ جرم ہوا اور خصوصاً اپنے ہاتھ سے تحریر کرنا۔ پس مرزا قادیانی کی حالت کا قیاس ان بزرگان دین کی حالت پر نہیں ہوسکتا۔
چہ نسبت خاک رابا عالم پاک
مؤیدات دعویٰ الوہیت
’’انت منی وانا منک۔ اے مرزا قادیانی تو مجھ سے میں تجھ سے۔‘‘
(الاستفتا ص۸۰،خزائن ج۲۲ ص۷۰۶)
’’الارض والسماء معک کما ہو معی(ایضاً) زمین وآسمان اے مرزا تیرے ساتھ ایسے ہیں جیسے میرے ساتھ۔ سرک سری‘‘ (الاستفتاء ص۸۱، خزائن ج۲۲ ص۷۰۷)
’’انت منی‘‘ بمنزلہ توحیدی وتفریدی اے مرزا تو میری توحیدی کا مرتبہ رکھتا ہے۔
مرزا جی کا خدا سے مرتبہ زائد
’’یا احمد یتم اسمک ولا یتم اسمی(انجام آتھم ۵۲، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)‘‘ اے مرزا تیرا نام پورا ہوجائے گا اور میرا نام ناقص ہی رہے گا یعنی تو مجھ سے مرتبہ کمال میں بڑھ جائے گا اور میں پیچھے رہ جائوں گا۔
عقیدہ کفریہ نمبر دوم ’’دعویٰ نبوت بعد خاتم النّبیین‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی کرشن چودھویں صدی نے نبوت ورسالت کا بڑے زور سے دعویٰ کیا ہے اور ان کی تمام تصنیفات اس دعویٰ سے مالا مال ہیں۔ اگرچہ بعض میں پردہ ڈال کے شکار کرنا چاہا۔ لیکن بعض کتابوں میں تو صراحت کے ساتھ دعویٰ کردیا اور اسی عقیدہ پر مرزا قادیانی کی گدی کے مالک خلیفہ محمود صاحب قائم ہیں اور یہ ہے بھی ٹھیک۔ کیونکہ الولد سر لابیہ مرزا قادیانی کے کمالات تقدس دعاوی کی حقیقت سے جس قدر ان کے بیٹے واقف ہوں گے۔ کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ ممکن ہے کہ مرزا قادیانی نے تحریر کے علاوہ