حضور کا مسکن اور مدفن ہے تو ایسے مقامات کے فضائل کا کیا کہنا۔ لیکن مرزاقادیانی کیونکر حرم کو چھوڑ کر دیر کی طرف رخ کرتے ہیں۔ اس کی تفصیل دوسرے کالم میں ملاحظہ ہو۔
خدمات خاص مکہ معظمہ میں بھی بجا نہیں لا سکتے۔ چہ جائیکہ اور کسی جگہ۔‘‘
(اتمام الحجہ ص۲۷، خزائن ج۸ ص۳۰۷)
’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو کچھ ہم پوری آزادی سے اس گورنمنٹ کے تحت میں اشاعت حق کر سکتے ہیں یہ خدمت ہم مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ میں بیٹھ کر بھی ہرگز بجا نہیں لاسکتے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۵۶ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۱۳۰)
دین کے ایک ایک جز میں اختلاف
قارئین نے مندرجہ بالا حوالہ جات سے اندازہ لگالیا ہوگا کہ امت مرزائیہ ایک جدا مذہب کی پیروکار ہے اور امت مسلمہ سے ہر معاملہ میں الگ تھلگ ہے۔ مزید اطمینان کے لئے دو حوالے اور ملاحظہ ہوں۔
۱… مرزابشیرالدین محمود خلیفہ دوم نے جمعہ کے خطبہ میں بیان کیا۔ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں سے ہمارا اختلاف صرف وفات مسیح اور چند مسائل میں ہے۔ اﷲتعالیٰ کی ذات، رسول کریمؐ، قرآن، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ۔ غرضیکہ آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ایک ایک جز میں ہمیں ان سے اختلاف ہے۔‘‘ (اخبار الفضل مورخہ ۳۰؍جولائی ۱۹۳۱ئ)
۲… ’’حضرت خلیفہ اوّل نے اعلان کیا تھا کہ ان کا (مسلمانوں کا) اسلام اور ہے اور ہمارا اسلام اور ہے۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۳۱؍دسمبر ۱۹۱۴ئ)
مرزاقادیانی کی انہی ہدایات اور ان کے خلیفوں کے اس قسم کے ارشادات ہی کا نتیجہ ہے کہ مرزائی اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی، سماجی اور معاشرتی مسائل غرض زندگی کے ہر شعبہ میں مسلمانوں سے الگ تھلگ رہتے ہیں اور یہی ہونا بھی چاہئے۔ کیونکہ انسانیت کی پوری تاریخ یہ بتلاتی ہے کہ نئے رسول کے آنے سے قومیں دو حصوں میں منقسم ہو جاتی رہی ہیں۔