ہائے افسوس! مرزاقادیانی، منصب نبوت کی رفعت اور نزاکت کو سمجھے ہی نہیں۔ ورنہ تو وہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی ارفع واعلیٰ شان میں اس قسم کی گستاخیاں نہ کرتے۔ وہ اگر قرآن پاک میں غور کرتے تو انہیں پتہ چلتا کہ نبی کا رخ گناہ اور برائی کی طرف ہونا کجا، اگر برائی خود ان کی طرف رخ کرے تو عصمت خداوندی آگے بڑھ کر اسے دور کر دیتی ہے اور نبی کا دامن تقدس داغدار ہونے نہیں پاتا۔ سورۂ یوسف میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ ’’کذلک لنصرف عنہ السوء والفحشائ‘‘ یوں نہیں کہاگیا ’’لنصرفہ عن السوء والفحشائ‘‘ (یہ ایک علمی نکتہ ہے۔ جس سے اہل علم ہی محظوظ ہوسکتے ہیں اور یہ بھی حضرت مولانا بدر عالم صاحب میرٹھی کے افادات میں سے ہے)
مسئلہ ختم نبوت
عقیدۂ رسالت کے سلسلہ میں تیسرا مسئلہ ختم نبوت کا ہے۔ اس بارے میں مسلمانوں اور مرزائیوں کے عقائد سنئے:
نبوت کا سلسلہ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام سے جاری ہوا اور حضرت محمد مصطفیﷺ پر آکر ختم ہوگیا۔ اب قیامت تک کے لئے پوری انسانی کائنات کے لئے حضورﷺ ہی کی تعلیمات ذریعہ ہدایت ہیں۔ حضورﷺ کے بعد یہ سلسلہ قطعی طور پر بند ہوچکا ہے۔ اب کسی قسم کا ظلی، بروزی، تشریعی، غیرتشریعی نبی نہیں آسکتا۔ اس بارے میں کم وبیش ایک سو آیات قرآنیہ، دو سو احادیث اور ہزاروں علمائے وقت کے اقوال موجود ہیں۔ یہاں پر ہم چند دلائل نقل کرتے ہیں۔ قرآن کریم پر مجموعی طور پر نظر ڈالنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ آنحضرتﷺ آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ اﷲ جل شانہ، نے آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وحی نبوت کے جاری ہونے تک کے سلسلہ کی خبر دی ہے۔ چنانچہ فرمایا جب کہ آدم علیہ السلام معہ اپنی ذریت کے اس دنیا پر لائے گئے تو خداوند تعالیٰ نے اطلاع دی۔ سلسلہ نبوت وہدایت جاری کیا جاوے گا۔ ’’فاما یاتینکم منی ہدیً فمن تبع ہدای فلا خوف علیہم ولاہم یحزنون (بقرہ:۳۸)‘‘ یہ ابتداء اور آغاز وحی ہے۔ اس کے بعد نوح علیہ السلام کے زمانہ تک پہنچتے ہیں اور قرآن شریف سے پوچھتے ہیں کہ سلسلہ نبوت جاری ہے یا نہیں۔ جواب ملتا ہے کہ ہاں جاری ہے۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ولقد ارسلنا نوحاً وابراہیم وجعلنا فی ذریتہما النبوۃ والکتاب (حدید:۲۶)‘‘ اس سے معلوم