’’اس کے بستر کے نیچے ایک مرا ہوا بڑا سانپ پایا لوگوں نے اس سانپ کے پیٹ میں اس قدر حلوا بھرا تھا کہ حلوا کی زیادتی کی وجہ سے وہ مر گیا۔‘‘
اب قادیانی مولوی فرمائیں کہ یہ نظر کی کوتاہی ہے یا دیدہ ودانستہ فریب دہی؟ کیا اس قسم کی روایتوں سے وہ سنت اﷲ ثابت کرسکتے ہیں۔ کیا اس روایت کے مضامین حضرت موسیٰ اور ستر ہزار فرشتے والی روایت سے کچھ کم ہیں؟ خوف خدا دل میں رکھ کر جواب دیں اور بطریق محدثین اس روایت کی صحت ثابت کریں۔ ودونہ خرط القتاد!
چوتھی بددیانتی
قادیانی مولوی اپنے رسالہ کے ص۱۰۳ میں علامہ ممدوح پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ: ’’خدائے قدوس کے اسماء متبرکہ میں مضل کو شمار کرنا ابو احمد صاحب ہی کا اجتہاد ہے۔‘‘ پھر ص۱۰۴ میں لکھتے ہیں۔ ’’کاش اسمائے الٰہی جو کتب متداولہ مثل جلالین شریف وترمذی شریف وغیرہ میں مذکور ہیں۔ اسی کو ابو احمد صاحب دیکھ لیتے تو ایسی ٹھوکر نہ کھاتے۔‘‘ میں کہتا ہوں کہ مولوی صاحب جلالین شریف اور ترمذی شریف وغیرہ کا بغور مطالعہ کریں اور یہ بتائیں کہ کیا ان کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ اسمائے الٰہی انہیں ناموں میں میں منحصر ہیں؟
کاش قادیانی مولوی بیہقیؒ کی کتاب الاسماء والصفات دیکھ لیتے تو ان کو معلوم ہوجاتا کہ اسمائے الٰہی نودونہ (ننانوے)نام ہی میں منحصر نہیں ہیں۔ بلکہ اسمائے الٰہی کا شمار ایک ہزار تک پہنچتا ہے۔ انشاء اﷲ تعالیٰ! اس کی پوری بحث جواب رسالہ میں کی جائے گی۔ سردست مکتوبات مجدد الف ثانیؒ سے ہم یہ دکھلا دیتے ہیں کہ مجدد صاحب نے بھی خدا کا ایک نام مضل بھی لکھا ہے۔ عارفین کا ملین کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: چنانچہ اسلام رامستحسن میداند کفرراآنجا نیز حسن می یا بدوہر دورا! مظاہر اسم الہادی واسم المضﷲ یافتہ ازہر دو حظ می گردد متلذذمی گردد! (مکتوب۳۳ ج سوم ص۶۴)
ترجمہ… ’’جس طرح اسلام کو مستحسن جانتا ہے کفر کو بھی وہاں حسن پاتا ہے اور دونوں کو خدا کے (دوناموں) ہادی اور مضل کا مظہر پاکر حظ اور لذت لیتا ہے۔ ‘‘
مولوی صاحب فرمائیں کہ یہ ان کی کوتاہ نظری ہے یا محض افتراء پردازی۔ افسوس ہے کہ مولوی صاحب پر یہ مصر ع پورا پورا صادق آرہا ہے:
میں الزام ان کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا