سے پیدا ہوئے۔ جیسا کہ آدم علیہ السلام بغیر ماں وباپ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کی قدرت سے پیدا ہوئے۔ ورنہ ماں اور باپ دونوں سے تولد کی آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیدائش سے کوئی نسبت نہیں۔ کیا یہ برہان قاطع نہیں اپنے مدعا پر؟
انصاف شرط ہے اور پھر اسی سورہ آل عمران میں اس آیت کریمہ کے بعد یہ فرمایا:
’’فمن حاجک فیہ من بعد ما جائک من العلم فقل تعالوا ندع ابناء ناوابنائکم ونسائنا ونسائکم وانفسنا وانفسکم ثم نبتہل فنجعل لعنت اﷲ علی الکذبین‘‘ {پھر اگر کوئی علم (وحی) آجانے کے بعد اس بارے میں آپ سے جھگڑا کرے تو آپ اسے کہئے، آئو ہم اور تم اپنے اپنے بچوں کو اور بیویوں کو بلا لیں اور خود بھی حاضر ہوکر اﷲ سے گڑگڑا کر دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو، اس پر اﷲ کی لعنت ہو۔ (آل عمران:۶۱) }
یعنی اس قاطع برہان کے بعد بھی یہ سیدھی راہ سے ہٹے ہوئے لوگ تم سے مباحثہ ومناظرہ کریں اور حق کے سامنے اذعان کرنے پر آمادہ نہ ہوں تو انہیں کہو آئو اب ہم دونوں فریق مباہلہ کریں اور اﷲ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا کریں کہ جھوٹے پر لعنت ہو۔ یہ مباہلہ کی دعوت سن کر وہ نجران کے عیسائی جزیہ دینے پر راضی ہوگئے اور بغیر مباہلہ کئے واپس ہوگئے۔
اگر درخانہ کس است یک حرف بس است
ضدی اور میں نہ مانوں کی رٹ لگانے والے کا کوئی علاج انسان کے پاس نہیں ہے۔
الروح الامین علیہ السلام کا پھونک مارنا
۴… اگر عیسیٰ علیہ السلام ماں اور باپ دونوں سے پیدا ہونے والے تھے تو جبرائیل امین یہ بشارت دے کر چلے جاتے اور بعد میں ان کا نکاح کا ذکر آتا۔ لیکن ایسا ہر گز نہیں بلکہ اسی بشارت کے بعد متصل ہی مریم علیہا السلام کو حمل ہوگیا تھا اور اس پر بشارت کے بعد متصل ہی یہ آیت کریمہ آتی ہے:
’’فحملتہ فانتبذت بہ مکاناً قصیّاً‘‘ {چنانچہ مریم کو اس بچے کا حمل ٹھہر گیا تو وہ اس حالت میں ایک دور مکان میں علیحدہ جا بیٹھیں۔(مریم: ۲۲)}
یعنی ’’پھر اس وقت مریم علیہا السلام نے عیسیٰ علیہ السلام کو اپنے بطن میں اٹھالیا یعنی ان کو حمل ہوگیا، اور وہ اس حمل کو لے کر کہیں دور دور مکان کی طرف لے گئی۔ یہ اسی وقت کا ترجمہ اس سے نکلتا ہے کہ آیت کریمہ پر فاء (فحملتہ) داخل ہے اور علوم عربیہ کے قوانین کے بموجب فاء