نقطہ اولیٰ اور نقطہ آخر کے درمیان ہیں جن کو اتمام دائرہ سے اور ختم نبوت سے کوئی علاقہ نہیں۔
نتیجہ یہ نکلا کہ ابتدائے نبوت حضرت آدم سے ہے اور ختم نبوت مرزا قادیانی پر ہے۔ اقلیدس کے پڑھنے والوں نے بہت سی شکلیں پڑھی ہوں گی مگر ایسی آج تک نہ دیکھی ہوگی جو مرزا قادیانی نے پیش کی ہے۔ لہٰذا ہم اس شکل کا نام شکل مرزائی رکھتے ہیں اور دائرہ ہندیہ مرزائیہ۔
عقیدہ کفریہ نمبر۳ ’’دعویٰ وحی رسالت‘‘
تمہید:خدا کی بات بندے تک پہنچنے کی متعدد صورتیں ہیں۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ رب تبارک وتعالیٰ بغیر کسی واسطے کے اپنے بندے سے گفتگو فرمائے اور بندہ اپنے جسمی کان سے اس کی آواز کو سنے۔ یہ مرتبہ تو صرف انبیاء کرام علیہم السلام کے لئے ہے۔ جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آقائے نامدارﷺ اس مرتبہ ہم کلامی پر یقینا فائز ہوچکے اور یہ قسم وحی کی اعلیٰ درجہ کی قسم ہے۔ چونکہ رب تبارک وتعالیٰ نے حضور پر سلسلہ نبوت ختم فرما دیا ہے آپ کے بعد کسی کو نبوت عطا نہ کی جائے گی تو اس قسم کی ہم کلامی کا جو دعویٰ کرے گا و ہ قانون اسلام کے مطابق اسلام سے خارج ہوجائے گا۔ اس لئے کہ اس میں ختم نبوت کا انکار ہوتا ہے
شرح عقائد جلالی میں ہے: ’’المکالمۃ شفاہا منصب النبوۃ بل اعلیٰ مراتبہا وفیہ مخالفۃ لما ہو من ضروریات الدین وہو انہﷺ خاتم النّبیین علیہ افضل صلوٰۃ المصلین‘‘ اﷲ عزوجل سے کلام حقیقی منصب نبوت ہے۔ بلکہ اس کے اعلیٰ مراتب میں اعلیٰ مرتبہ ہے اور اس کے دعویٰ کرنے میں بعض ضروریات دین یعنی نبیﷺ کے خاتم النّبیین ہونے کا انکار ہے۔
شفاء شریف میں ہے: ’’وکذالک من ادعیٰ مجالسۃ اﷲ تعالیٰ والعروج الیہ ومکالمۃ‘‘ اسی طرح وہ شخص بھی کافر ہے جو اﷲ تعالیٰ کے ساتھ ہم نشین، اس تک صعود، اس سے باتیں کرنے کا مدعی ہے۔
(تفسیر عزیزی سورۃ البقرہ ص۴۲۷) ’’منشائے ایں گفتگوئے ایشاں جہل است زیراکہ نمی فہمیدند کہ رتبہ ہم کلامی باخدائے عزوجل بس بلند است ایشاں بہ پایہ اولین آں کہ ایمان است نہ رسیدہ اندوآں رتبہ مختص است بملائکۃ وانبیاء وغیر ایشاں راہرگز میسر نمی شود پس فرمائش ہم کلامی باخدا گویا فرمائش آئست کہ ما ہمہ را پیغمبران یا فرشتہا سازد‘‘
کفار مکہ نے کہا تھا کہ : ’’لولا یکلمنا اﷲ‘‘ ہم سے خدا کیوں نہیں کلام کرتا؟شاہ