فہرست عقائد کفریہ واقوال باطلہ مرزا غلام احمد قادیانی
عقیدہ کفریہ نمبر اول ’’دعویٰ الوہیت‘‘
’’ورایتنی فی المنام عین اﷲ وتیقنت اننی ہو‘‘ یعنی میں نے خواب میں دیکھا کہ میں بعینہ خدا ہوں اور میں نے یقین کرلیا کہ میں واقعی وہی ہوں۔ اس مقام کی تفصیل ان جملوں سے کی جاتی ہے:
’’میں نے اپنے جسم کی طرف دیکھا تو میرے پائوں خدا کے ہاتھ پائوں ہیں۔ میری آنکھ اس کی آنکھ ہیں۔ میرے کان اس کے کان ہیں، میری زبان اس کی زبان ہے۔ میں نے اس کی قدرت قوت کو اپنے نفس میں جوش مارتے ہوئے دیکھا اور الوہیت میری روح میں موج مارتی تھی، الوہیت مجھ پر بہت سخت غالب ہوگئی۔ الوہیت میری رگوں میرے پٹھوں میں گھس گئی ہے۔ خدا میرے وجود میں داخل ہوگیا۔‘‘ (آئینہ کمالات ص۵۶۴، خزائن ج۵ ص ایضاً)
یہ کلمات کس قدر کفریات پر مشتمل ہیں۔ خلاصہ ان کا یہ ہوا کہ میں مجسم خدا ہوں … ۔
’’میں اسی حالت میں تھا کہ کہتا تھا کہ اب ہم نظام جدید قائم کریں گے۔ نیا آسمان نئی زمین بنائیں گے تو میں نے آسمانوں اور زمینوں کو پہلے اجمالی صورت میں پیدا کیا۔ پھر میں نے تفریق وترتیب دی اور میں اپنے آپ کو آسمان وزمین کے پیدا کرنے پر قادر سمجھتا تھا۔ پھر میں نے آسمان دنیا کو پیدا کیا اور میں نے کہا: ’’انا زینا السماء الدنیا بمصابیح‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۵۶۵، خزائن ج۵ ص ایضاً)
اس گپی واقعہ کے ختم پر لکھتے ہیں۔ اس واقعہ سے ہماری مراد وہ نہیں ہے جو وحدۃ الوجود کا مقصود ہے اور نہ حلول جیسا کہ حلولیہ کا مذہب ہے، یہ کہ اس سے مراد قرب نوافل کا مرتبہ ہے۔
مرزا جی کہتے ہیں کہ نہ یہ وحدۃ الوجود ہے، نہ حلول ہے یعنی بالکل میں ہی خدا ہوں۔ رہا مرزا قادیانی کا قرب نوافل بتانا، یہ بالکل غلط ہے۔ اس لئے کہ واقعہ کے جس قدر الفاظ ہیں وہ سب قرب نوافل کے منافی ہیں۔
قرب نوافل میں یہ کہاں ہے کہ خدا وجود میں داخل ہوجاتا ہے۔ الوہیت روح میں موج مارتی ہے، قرب نوافل میں پہنچنے والا انسان زمین وآسمان بنانے کا کب دعویٰ کرتا ہے؟ کیا مرزا قادیانی کے سوا کوئی قرب نوافل کو نہیں پہنچا۔ حالانکہ بہت بزرگان دین ایسے گزرے جنہوں نے قرب فرائض کا مرتبہ پایا اور ان کی زبان سے حالت سہو میں کبھی ایسے کلمات نہیں نکلے اور اگر