وہ بار بار دعوت فکر دیتا ہے:’’افلا تعقلون۔ افلاتتفکرون‘‘اوراس جیسے جملے جگہ جگہ آپ کو قرآن مجید میں نظرآئیں گے۔ آپ عقل وخرد سے کام لیجئے۔جودعوت آپ کے سامنے آئے اس کا تانا بانا دیکھئے۔ اس کے پس وپیش پرنظرڈوڑائیے۔ اگر آپ حق کے جو یا ہیں تو یقینا حق وباطل آپ پر واضح ہو جائے گا۔ اگر وہ آپ کو معقول اورمدلل نظر آئے۔ ذہن کو اطمینان اوردل کو سکون مہیا کرے تو اسے قبول کریں ورنہ اسے مسترد کردیں۔ آپ بازار سے آٹھ آنے کی سبزی لیتے ہیں تو پوری طرح دیکھ بھال کر لیتے ہیں۔ مذہب کے بارے میں چشم پوشی اورکوتاہ نظری سے کیوں کام لیں؟
مشہورمروجہ مذاہب اورحق مذہب کی پہچان
دنیا کے متمدن ممالک میںجو مذاہب عام طور پر رائج ہیں اور جن کے پیروکار کروڑوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ وہ یہ پانچ مذاہب ہیں۔ یہودیت، عیسائیت، ہندو دھرم، بدھ مت اوراسلام۔ ہر ایک میں پھر شاخیں درشاخیں چلی گئی ہیں اور اس طرح پر انسانی آبادی ان گنت ٹولیوں اور گروہوں میں بٹ گئی ہے۔ لیکن اصولی طور پر یہی مذاہب خمسہ رائج ہیں۔
کسی مذہب کی حقانیت اورصداقت کیسے معلوم کی جاسکتی ہے؟وہ کون سی کسوٹی ہے جس پر مذاہب کو پرکھ کر ان کا صحیح یا غلط ہونا دریافت کیا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب بڑا آسان اور مختصر ہے۔ وہ یہ کہ جو مذہب انسان کی فطرت سے ہم آہنگ اور نوایس قدرت کا ساتھ دینے والا ہو، وہی سچا مذہب اوردین برحق ہے۔ مثال کے طور پر انسان کااشرف المخلوقات ہونا روزمرہ کے تجربات اور مشاہدات سے ثابت ہے۔ اب فطرت انسانی کا تقاضا ہے کہ مذہب اسے یہ سرٹیفکیٹ دے کہ:
جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کے لئے
اس کے برعکس جو مذہب اسے حجروشجر کی پرستش ، شمس وقمر کے آگے سجدہ ریزی یا آب و آتش کے سامنے سر جھکانے کی تعلیم دیتا ہو،وہ مذہب یقینا فطرت سے باغی اور ناقابل قبول ہے۔ علی ہذا القیاس دوسرے مسائل کو سوچا جاسکتا ہے۔ اب یہ ہمارا تمہارا فرض ہے کہ کسی مذہب کو قبول کرنے اور اس کا دم بھرنے سے پہلے خدا داد عقل اور ضابطہ فطرت کی روشنی میں اس کو جانچ اور پرکھ لیں۔