نہ صورت ،نہ سیرت ،نہ خالش ، نہ خط
بمحبوب نامش نہادند غلط
مصنف نے اپنی افتاد طبع کے مطابق مناظرانہ نوک جھونک اورلب ولہجہ کی درشتی سے حتی المقدور اجتناب کیا ہے۔ اس کے باوجود اگر کہیں تلخی محسوس ہو تو مصنف اس کے لئے رسمی معذرت کی ضرورت بھی نہیں سمجھتا۔ مرزاقادیانی کا اپناانداز تحریر جس قدر گھناؤنا ہے۔اس کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایک ناقد کا اس کے بارے میں تسامح سے کام لینا بجائے خود ایک کرامت ہے:
چمن میں تلخ نوائی مری گوارہ کر
کہ زہر بھی کرتا ہے کبھی کار تریاقی
تقریب سخن
مذہب کی ضرورت
دور حاضر کا انسان جب اپنے گرد وپیش پرنظرڈالتا ہے توگوناگوں اسباب معیشت اور حیرت انگیز سائنسی ایجادات کو دیکھ کر وہ کچھ دیر کے لئے ٹھٹک جاتا ہے۔ اس کے دل میں مذہب سے آزادی اوردین سے گلو خلاصی کی امنگیں اٹھتی ہیں۔ لیکن دوسری طرف مذہب کی بندشیں بھی اتنی مضبوط ہیں کہ ہر وہ شخص جس کوعقل وخرد سے کچھ حصہ ملا ہے اور وہ اس سے سوچنے سمجھنے کا کام لیتا ہے وہ اپنے آپ کو ان بندشوں کے ساتھ وابستہ رکھنے پر مجبور پاتا ہے اور وہ پکار اٹھتا ہے کہ خدا سے پائیدار تعلق اورمذہب سے گہرالگاؤ ہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے اس طائر لاہوتی (روح انسانی) کو عافیت اور سکون کی لازوال دولت حاصل ہوسکتی ہے۔ ’’الابذکراﷲ تطمئن القلوب‘‘
نہ کلی ہے وجہ نظرکشی، نہ کنول کے پھول میں تازگی
فقط ایک دل کی شگفتگی، سبب نشاط بہار ہے
اسی لئے ٹالسائی کو کہناپڑا:
Faith is the force of life.
یعنی مذہب حیات انسانی کا سرچشمہ ہے۔ سویڈن برگ نے کہا:
Self love and the love of the world constitute hell.