بالیمین ثم لقطعنا منہ الوتین‘‘ کا خلاصہ ہے جلد سزا دینا آیت سے تبعاً نہیں بلکہ اصالتاً سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے کہ یہ شرطیہ متصلہ لزومیہ ہے۔ جس میں مقدم تالی کو مستلزم ہوتا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہمارا رسول کچھ بھی افترا کرتا تو ہم فوراً اس کو ہلاک کردیتے اور ظاہر کلام سے یہی مقصود ہے۔ پس جلد ہلاک کیا جانا عبارت النص سے ثابت ہوا نہ کہ اشارۃ النص سے۔ ورنہ مولوی صاحب یہ ثابت کریں کہ یہاں پر عبارت النص سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ اور یہ بھی ثابت کریں کہ یہ بات (جلد ہلاک ہونا) کن الفاظ سے تبعاً سمجھا جاتا ہے یا یہ بھی بتائیں کہ ہلاکت سے کیا مراد ہے؟ اگر معمولی ہلاکت ہی مراد ہے تو یہ معیار صداقت نہیں ہوسکتی ہے۔ اس لئے کہ معمولی ہلاکت تو سب اسی کے لئے ہے اور اگر کسی خاص قسم کی ہلاک مراد ہے۔ تو اس کی تصریح کرنی چاہئے۔‘‘
قادیانی مولوی نے الفاظ سیاق وسباق کے متعلق کچھ بھی نہیں لکھا۔ آیت لکھ کر صرف اس کا ترجمہ کردیا ہے۔ پھر یہ لکھنا ان کا محض فریب نہیں تو کیا ہے؟ ناظرین! قرآن مجید کے الفاظ سیاق وسباق سے تو آپ سمجھ چکے۔
ساتویں بددیانتی
قادیانی مولوی اپنے رسالہ کے ص۱۳۸ میں لکھتے ہیں:’’کیونکہ کچھ افتراء کا جب یہ حال ہے تو بہت افتراء اور کل افتراء کا کیا حال ہوگا اور چونکہ لفظ سے یہ معنی تبعاً سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے کہہ سکتے ہیں کہ یہ معنی بطریق اشارۃ النص ثابت ہے۔‘‘ میں کہتا ہوں کہ اشارۃ النص میں صرف کسی معنی کا تبعاً سمجھا جانا معتبر نہیں ہے۔ بلکہ اس معنے کو نظم کلام سے ازروئے لغت کے سمجھا جانا چاہئے۔ آیت میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جس کے معنی لغت کے روئے بہت افتراء یا کل افتراء ہو۔ کیا یہ صریح بددیانتی نہیں ہے کہ کسی فن کے اصطلاحی الفاظ کو غلط معنی میں استعمال کرکے لوگوں کو دھوکا دیا جائے۔ مولوی صاحب نور الانوار کی اس عبارت کو پیش نظر رکھ کر جواب دیں۔
’’اما الاستدلال باشارۃ النص فہو العمل بماثبت بنظمہ لغۃً لکنہ غیر مقصود ولاسیق لہ النص ولیس بظاہر من کل وجہ ‘‘
ترجمہ…’’ استدلال اشارہ النص کے ساتھ عمل کرتا۔ اس چیز (معنی) کے ساتھ جو نظم کتاب سے ازروئے لغت کے ثابت ہو لیکن وہ غیر مقصود ہو اور نہ اس کے لئے کلام مسوق ہوا ہو اور نہ وہ ہر طرح سے ظاہر ہو۔‘‘