اسی طرح نزول سیدنا مسیح علیہ السلام کے مختلف کوائف کے بیان کرنے والے حضرات صحابہ کرامؓ کی ایک بڑی جماعت ہے۔ راقم السطور، حدیث کا ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے کم از کم دو درجن صحابہؓ کے اسماء گرامی گنوا سکتا ہے۔ اور بعض صحابہ کرامؓ سے کئی کئی طرق سے یہ روایات منقول ہیں۔ جب کہ محدثین حضرات کی توجہ زیادہ تر عملی زندگی کے ان مسائل کی طرف تھی۔ جن کے بارے میں آخرت میں جواب دہی کرنا ہوگی۔ اس کے باوجود آپ دیکھئے کہ نماز دین کا ستون ہے۔ مگر اوقات نماز کی روایات کتنے صحابہ کرامؓ سے مروی ہیں۔ فرض نماز کی رکعتوں: فجر۲، ظہر۴، عصر۴، مغرب۳، عشائ۴ کے بارے میں کتنے صحابہ کرامؓ کی روایات موجود ہیں؟اگر وہاں امت کا عملی تواتر معتبر ہے تو وہ اعتقادی مسائل:
٭… جن کا چرچا حضرات صحابہ کرامؓ میں بھی رہا، تابعینؒ میں بھی۔
٭… تمام مفسرین نے بھی ان کی تفصیلات بیان کیں اور محدثین نے بھی۔
٭… حدیث کی وہ تمام معتبر کتابیں جو شریعت کا ماخذ اور مدار ہیں۔ صحیح بخاری ہو یا مسلم، سنن ابو دائود ہو یا ترمذی، سنن نسائی ہو یا ابن ماجہ، سب میں ان کی تفصیلات درج ہوں۔
٭… شارحین حدیث میں حافظ ابن عبدالبرؒ یا امام نوویؒ، علامہ ابن حجر عسقلانیؒ ہوں یا علامہ سیوطیؒ ان کی اہمیت کو بیان کریں۔ بالخصوص مسئلہ نزول مسیح علیہ السلام کی یہ کیفیت ہے کہ:
٭… علم کلام کی کتب کے مصنفین حضرت امام ابو حنیفہؓ (امام اعظم) اور امام طحاویؒ سے لے کر علامہ نسفیؒ اور تفتازانیؒ تک سب اس کو امت اسلامیہ کے عقائد میں درج فرماتے ہیں
تو سوال یہ ہے کہ کیا پھر بھی کسی وہمی کے لئے عقیدہ نزول سیدنا مسیح علیہ السلام میں شک وشبہ کی گنجائش رہ جاتی ہے؟ کیا کسی کو یہ کہنے کا حق پہنچتا ہے کہ: ’’نزول مسیح کا عقیدہ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔‘‘
یا پھر یہ تفصیلات معلوم ہوجانے کے بعد کہ:
٭… آنے والے کا نام عیسیٰ: کنیت ابن مریم۔ لقب: روح اﷲ اور مسیح ہے۔
٭… وہ پیدا نہیں ہوں گے۔ بلکہ آسمان سے اتر کر آئیں گے۔