ایک پہیلی
کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار ہوں
(براہین احمدیہ ج۵ص۹۶،خزائن ج۲۱ ص۱۲۷، درثمین ص۶۹)
آپ خوب سوچ کر بتائیں وہ کیا چیز ہے جس کا مرزا غلام احمد نے اس شعر میں دعویٰ کیا ہے؟
جواب: پنجابی میں اسے گوں کا کیڑا یعنی چانموڑان کہتے ہیں۔
عصمت انبیاء بقول مرزا
’’نبی کی عصمت ایک اجماعی عقیدہ ہے نبی کے لئے معصوم ہونا ضروری ہے۔‘‘
(سیرت المہدی ج۳ ص۱۱۵)
مرزا معصوم نہیں بقول خود
’’لیکن افسوس ہے کہ بٹالوی صاحب (یعنی مولوی محمد حسین بٹالوی) نے یہ نہ سمجھا کہ نہ مجھے اور نہ کسی انسان کو بعد انبیاء کے معصوم ہونے کا دعویٰ ہے۔‘‘
(کرامات الصادقین ص۵، خزائن ج۷ ص۴۷)
کیوں نہیں مرزا غلام احمد معصوم ہونے کا دعویٰ کس طرح کرسکتا ہے جبکہ اس نے بے شمار انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی توہین کی ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور اللہ تعالیٰ کی شان میں بھی گستاخی کی ہے اور قرآن پاک کی توہین کی ہے۔ کیونکہ بہت صریح آیت کا انکار کیا اور بعض کا مفہوم کچھ کا کچھ بنالیا اور ۵۲ سال تک شرک عظیم میں بقول خود پھنسا رہا اور الوہیت کے دعوے کئے اور ابن اللہ اپنے آپ کو بنایا اور نوجوان عورتوں سے پائوں دبواتا رہا یہ تمام باتیں ہم بیان کر آئے ہیں۔ لیکن ان تمام گناہوں کے باوجود مرزاقادیانی اپنی بناسپتی نبوت کا ڈھول بجاتا رہا ہے۔ فاعتبروایااولی الباب۔
ملازمت
مرزا غلام احمد قادیانی نے سیالکوٹ میں چار سال کی ملازمت کی۔ (دیکھئے سیرت المہدی ج۲ ص۱۵۰) پر ایام ملازمت ۱۸۶۴ء سے ۱۸۶۸ء تک بتایا ہے۔ کیوں نہیں جھوٹے مدعی نبوت کی یہی شان ہونی چاہئے کہ انگریز کافر کی غلامی اختیار کرے۔