معمولی سمجھ کا آدمی بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ جو عبارت رسالہ میں نقل کی گئی ہے اس کا صحیح مطلب سمجھنے کے لئے اس عبارت کا نقل کرنا ضروری تھا۔ مگر مولوی قادیانی نے اپنی کمال دیانت داری ثابت کرنے کے لئے اس عبارت کو حذف کردیا۔ غالباً یہ خوف دامن گیر ہوا ہوگا کہ یہ عبارت تو مرزاقادیانی آنجہانی کی مسیحیت کے بنیادی پتھر کے اکھاڑ دینے کیلئے کافی ہے۔ اس لئے کہ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا ذکر ہے۔ اگر یہ عبارت نقل کر دی جائے گی تو عورام پر مرز اقادیانی کی مسیحیت کی حقیقت کھل جائے گی۔
معلوم نہیں کہ یہ قطع وبرید خلیفہ قادیان کے حکم سے کی گئی ہے یا خود رائی سے واضح رہے کہ حضرت مجدد صاحبؒ کے کلام میں نزول عیسیٰ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا مراد ہے۔ جیسا کہ آپ نے ایک دوسرے مکتوب میں میں تصریح فرما دی ہے۔
’’وحضرت عیسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کہ از آسمان نزول خواہد فرمودہ متابعت شریعت خاتم الرسل خواہد نمود علیہم الصلوٰۃ والتسلیمات (مکتوب۱۷ ص۲۷ ج۳)‘‘ {حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نزول فرمائیں گے۔ تو حضرت خاتم الرسلﷺ کے شریعت کی پیروی کریں گے۔ }
ہاں علمائے ظواہر سے وہی علماء کیونکر سمجھے گئے جو مرزا قادیانی آنجہانی کے مخالف ہیں۔ کیا وہ علماء جو ان کے موافق ہیں۔ علمائے باطنیہ ہیں؟ بلکہ قرین قیاس بات تو یہ ہے کہ وہی علمائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کریں گے۔ جو ممات مسیح کے قائل ہوکر مرزا غلام احمد قادیانی کو مسیح موعود مانتے ہیں۔
کیونکہ ان کے اعتقاد میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ آنا محال ہے اور وہ علماء جو حیات مسیح کے قائل ہیں۔ وہ احادیث کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول دیکھ کر فوراً مان لیں گے۔ کیونکہ وہ لوگ تو ان کا انتظار ہی کررہے ہیں۔
دوسری بددیانتی
قادیانی مولوی نے دوسری عبارت جو مکتوبات سے نقل کی ہے۔ یہ ہے:’’ ہم منقول ست کہ حضرت مہدی درزمان سلطنت خود چون ترویج دین نماید واحیائے سنت فرماید عالم مدینہ کہ عادت بعمل بدعت گرفتہ بود آنرا حسن پند اشتہ ملحق بدین ساختہ از تعجب گوید کہ این مرد رفع دین مانمودہ واہانت ملت ما فرمودہ (ص۲۷۸ مکتوب ۲۵۵ جلد اول)‘‘