اسلام کیا ہے؟
یہاں پر ہم یہ سوال زیربحث نہیںلانا چاہتے کہ دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں اسلام ہی کیونکر فطرت کا ہم نوا ہے اوردوسرے مذاہب کہاں کہاں فطرت کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ بجائے خود ایک تفصیل طلب عنوان ہے۔ البتہ اس وقت ہم اس نکتہ کی طرف ضرور توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ مذکور ہ بالا مذاہب میں بنیادی اوراہم ترین اصولی اختلاف کیا ہے؟کہاں سے ان کے راستے الگ الگ ہوتے ہیں؟
اس وقت دنیا کی کم وبیش ایک چوتھائی آبادی اسلام کا کلمہ پڑھتی ہے:’’لاالہ الااﷲ محمد رسول اﷲ‘‘یہ کلمہ ایک مختصر سا جملہ ہے جس کے دو جز ہیں۔ایک :’’لاالہ الااﷲ‘‘ اس میں خدا کی وحدانیت کا اقرار ہے۔ دوسرا :’’محمد رسول اﷲ‘‘جس میں حضرت محمدﷺ کی رسالت کا اعتراف پایا جاتاہے۔ اب یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب بعثت انبیاء کا اصلی مقصد بندوں کو اﷲ سے جوڑنا ہے۔تمام انبیاء علیہم السلام توحید باری تعالیٰ کے علمبردار اور داعی بن کر دنیا میں تشریف لائے تو ایمان لانے کے لئے فقط :’’لاالہ الااﷲ‘‘پراکتفاء کیوں نہ کیاگیا؟ دوسرا جز ملانا کیوں ضروری قراردیاگیا؟تواس سوال کا جواب ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کیجئے:
اگر کسی ملک کا کوئی شہری زبان سے ایک مرتبہ نہیں بلکہ ہر روز صبح اٹھ کر ایک تسبیح پوری پڑھ دیا کرے کہ :’’میں گواہی دیتا ہوں کہ …صاحب میرے ملک کے والی یاصدر محترم ہیں اور میں ان کا وفادار رعایا کا ایک فرد ہوں۔‘‘ لیکن وہ اس بات سے بالکل لاتعلق رہے کہ اس کو ایک شہری ہونے کی حیثیت سے کن کن قوانین کی پابندی کرنا ہے۔ کن فرائض کی بجاآوری اس کے ذمہ ہے۔کن چیزوں سے اجتناب اس پرلازم ہے۔اس کی انفرادی اوراجتماعی ذمہ داریاں کیا کیا ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ تو یقینا ایسے آدمی کاٹھکانہ یا توجیل خانہ ہوگا یا پاگل خانہ اور اس وقت تک اسے وہاں رکھا جائے گا جب تک کہ وہ ملکی قوانین کی بالادستی تسلیم نہ کر لے اور عمال وحکام کا وفادار ثابت نہ ہو۔ بعینہ اسی طرح سمجھ لیجئے کہ دل کے ساتھ ایک اﷲ کو اپنا الہ مان لینے اور زبان کے ساتھ اس کا اقرار کر لینے سے ایک شخص خدا کا ماننے والا نہیں کہلا سکتا۔ جب تک کہ وہ اپنی نشست و برخاست،عبادات وعادات ، خوردونوش، بودوماند، غرض زندگی کے ایک ایک شعبہ میں اپنے آپ کو احکام خداوندی کی اطاعت کا پابند نہ ٹھہرالے۔