کریم کا نزول ایک ہی رات میں ہوا۔ آگے آسمان دنیا سے آنحضرتﷺ پر تھوڑا تھوڑا نازل ہوتا رہا اور ۲۳سال کے عرصہ میں
اسی طرح سمجھئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کانزول آسمان سے زمین پر دمشق کے شہر میں اور بعض روایات کے مطابق بوقت نماز عصر ہوگا۔ پھر مسلمانوں کے سربراہ سے ان کی ملاقات بیت المقدس میں نماز فجر کے وقت ہوگی۔
کیا آنے ولا ابن مریم اور مہدی دو الگ الگ شخص ہیں یا
ایک ہی شخص کے دو نام ہیں؟
احادیث کی روشنی میں آپ کو معلوم ہوچکا ہے کہ قیامت سے پہلے نزول فرمانے والے ابن مریم، حضرت مسیح اسرائیلی علیہ السلام ہوں گے اور مہدی ان سے الگ ایک شخصیت کا نام ہے جس کا تعلق اسی امت سے ہوگا۔ پوری امت کے علماء اس پر متفق ہیں اور چودہ سو سال میں ایک عالم کا نام بھی پیش نہیں کیا جاسکتا جو ابن مریم اور مہدی ایک ہی شخص کو قرار دیتا ہو۔ امام ابن حجر عسقلانیؒ، ابوالحسن خسعیؒ سے نقل کرتے ہیں: ’’اس بارے میں حدیثیں تواتر کی حد تک پہنچ چکی ہیں کہ امام مہدی اسی امت میں سے ہوں گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔‘‘ (فتح الباری ج۶ ص۳۱۷)
لیکن مرزاقادیانی اپنی کتابوں میں باربار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ آنے والا مسیح ہی مہدی ہے۔ مہدی اور کوئی نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں وہ دلیل کے طور پر ابن ماجہ کی ایک روایت پیش کرتے ہیں جس میں یہ لفظ ہیں۔ ’’لامہدی الا عیسیٰ‘‘ ہم اس حدیث کے بارے میں علامہ جلال الدین سیوطیؒ کے ریمارکس نقل کر دینا کافی سمجھتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
۱… ’’حافظ ذہبی کہتے ہیں کہ یہ روایت منکر (یعنی مشہور روایات کے برخلاف ) ہے۔ اسے اکیلے یونس بن عبدالاعلیٰ نے امام شافعیؒ سے نقل کیا ہے اور ایک روایت کے مطابق یونس نے یوں کہا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ امام شافعیؒ نے یوں نقل کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یونس اور امام شافعیؒ کے درمیان کوئی اور راوی ہے تو یہ روایت منقطع ہوئی۔ لیکن کچھ لوگوں نے یہ نقل کیا ہے کہ یونس کہتے ہیں۔ ہم سے شافعیؒ نے بیان کیا۔ صحیح یہی ہے کہ اس نے خود امام صاحب سے نہیں سنی۔‘‘
حدیث کا تیسرا راوی محمد بن خالد ازدی منکر الحدیث ہے۔ یعنی اس کی روایت قابل قبول نہیں ہوتی اور امام حاکم نے کہا ہے کہ وہ مجہول آدمی ہے۔ اس کا پتہ ہی نہیں کہ کون ہے۔ ابن